ہمسر اور شریک حیات کے عنوان سے ایک مرد یا ایک عورت کا وجود افراد کی کامیابی میں بہت بڑا اور اہم راز ہوا کرتا ہے ۔ کچھ دقت کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ ہر نیک اور صالح مرد و عورت کا شریک حیات کے عنوان سے وجود، فردی کامیابی، سعادت اور خوشبختی کا سبب ہوتا ہے کہ اس عظیم نعمت سے بہرہ مند ہے۔ امام خمینی (رح) کے بقول: "عورت کی آغوش سےمرد معراج پر جاتا ہے" ۔
ایک مرد یا ایک عورت کی کامیابی اس کے شریک حیات کی حمایت، امداد، نصرت اور تائید کے رہین احسان ہے۔ جہاں بھی اگر کوئی فرد کامیاب، سعادت مند اور مالدار ہے تو اس میں اس کے شریک حیات کا کردار ہے، یقینا اس کے پیچھے ایک سمجھدار شریک حیات ہے، حامی و مددگار، وفادار اور جاں نثار شریک حیات کا ہاتھ ہے، اور وہ اپنی بھر پور کوششوں، سرگرمیوں، فیصلوں اور نظریہ پردازیوں سے بنحو احسن یا پورے وجود سے حمایت کرتا ہے۔ کام کاج، سرگرمی، مسلسل کوشش، ریسک اور حمایت اور نظریہ پردازی میں مدد کرتی ہے۔ گھر والوں اور شریک حیات کی حمایت کے بغیر شکست سے دوچار ہوگا جس کا نتیجہ گرداب بلا میں گھر جانے کے سوا کچھ نہیں ہوگا۔ دنیا کے عظیم مرد اور عورت جاں نثار شریک حیات کے مالک تھے کہ ان کے ساتھ مصائب و آلام، مشکلات، فقر و ناداری، قرض اور دربدری برداشت کی اور انہوں نے شکست، ہجرت، جلاوطنی، غربت اور بے مہر و محبت کا تلخ گھونٹ پیا ہے۔
ان مرد و عورت نے اپنے شریک حیات کے ساتھ ساتھ مجاہدت اور جنگ کی ہے۔ ان کی سرگرمیوں اور کاموں میں شریک رہی ہیں۔ اور کبھی گھر اور بچوں اور زندگی کا بوجھ ہزاروں مصیبتوں کے ساتھ تن تنہا اٹھایا ہے۔ انہوں نے اپنوں اور غیروں کی زبانوں کا تیر برداشت کیا ہے۔ خود امام (رح) نے فرمایا: تمہارے اس بوڑھے باپ نے خشک مقدس لوگوں سے جو سختیاں اور مصائب برداشت کیا ہے کبھی یہ دوسروں سے برداشت نہیں کیا ہے۔ یقینا یہ خون دل پینا اور مصائب اٹھانا تنہا نہیں تھا۔امام (رح) کے شانہ بہ شانہ آپ کی شریک حیات نے خون جگر پیئے اور مظالم برداشت کئے بلکہ کبھی تو ان مطائب و آلام سے کہیں زیادہ خون جگر پینا پڑا ہے۔ لیکن پیشانی پر خم نہ آیا اور صبر کرکے اپنے صبر کی اجرت کامیابی عظمت اور شان و شوکت لی۔
کبھی امام (رح) کی شریک حیات خانم خدیجہ ثقفی، امام کے مقابلوں، مجاہدتوں اور گرفتاریوں میں اس طرح گھر اور خانواده کی مدیریت اور عمل کرتی تھیں کہ گویا امام خود موجود ہیں۔ امام کے قریبی لوگوں کی سرنوشت میں مذکور ہے، امام (رح) کی گرفتاری اور جیل جانے کے دوسرے دن امام کے گھر پر کافی بھیڑ لگ گئی۔ امام (رح) کے بچے، رشتہ دار اور ساتھی بہت پریشان تھے اور بے تاب ہورہے تھے۔ لیکن امام (رح) کی اہلیہ چادر اوڑھ کر بڑی ہی سنجیدگی اور صبر و بردباری کے ساتھ دوسروں کی دلداری کررہی تھیں اور گھر کی مدیریت کررہی تھیں۔ پھر امام کے جیل جانے کے بعد آپ تہران گئیں اور اپنے والد کے گھر میں رہنے لگیں اور روزانہ خود ہی کھانا پکا کر امام (رح) کے پاس لے جاتی تھیں۔
ہندوستان کے انقلاب کے قائد گاندھی اپنی کتاب "اپنی سرگذشت" میں اپنی بیوی کے بارے میں لکھتے ہیں: ان کا ایک اخلاقی امتیاز تھا جو ہر حیثیت سے قابل ذکر ہے۔ چارو ناچار، عمدا یا سہوا میری پیروی کرنے ہی میں اپنی صلاح سمجھتی تھی اور سادہ اور معمولی زندگی میں کبھی میری مانع اور رکاوٹ نہیں بنی۔ نتیجتا اخلاقی لحاظ سے ہم دونوں نے درمیان فرق تھا لیکن میں محسوس کرتا تھا کہ زندگی ہمیشہ رضایت، سعادت اور کامیابی کے ساتھ رہی ہے۔
یقینا امام (رح) کی اہلیہ کا کردار اسی طرح تھا کہ حضرت امام (رح) اس کا اکثر اعتراف کرتے تھے۔ امام (رح) کی ایک نواسا یا نواسی بیان کرتی ہیں: امام اور آپ کی اہلیہ کے درمیان کافی محبت اور صداقت تھی اس طرح سے امام کی بیوی ایک طرف اور دوسری طرف امام کے بچے۔
خدا سب کو اسی طرح کی شریک حیات سے نوازے۔ آمین۔