نجف اشرف میں شاہ کے نوکروں اور مخالفین اور بدخواہوں کی ساری کوششوں کے باوجود کچھ زمانہ گذرنے کے بعد نجف میں حضرت امام قدر و منزلت ثابت ہوگئی اور روز افزون ان کی طرف توجہ بڑھتی گئی اور مراجع سے رابطہ مستحکم تر ہوتا گیا۔ اس کے دوران امام کے ایک معاون نقل کرتے ہیں:
امام کے ایک مقلد نے تہران کے ایک عالم کو رقومات شرعیہ کے عنوان سے بھاری رقم دی تھی تا کہ اسے نجف میں امام کی خدمت میں پہونچائی جائے۔ یہ براہ راست آقا حکیم کے دفتر گئے اور وہاں رقومات دے کر رسید لیکر ایران واپس آگئے تھے اور مقلد کو رسید دے دی تھی۔ اس شخص نے کہا تھا کہ یہ رقم حاج آقا روح اللہ کی خدمت میں پہونچادیا جائے، آپ آیت اللہ حکیم کے یہاں سے رسید کیوں لے کر آئے ہو؟ اس عالم نے دیکھا کہ اگر بات پھیل گئی تو اچھا نہیں ہوگا۔ لہذا کچھ ہی دنوں بعد دوبارہ نجف اشرف جاتے ہیں اور امام کی طرف سے شہریہ تقسیم کرنے اور رقومات شرعیہ لینے کے مسئول آیت اللہ شیخ نصر اللہ خلخالی کے پاس گئے اور سارا واقعہ بتاتے هیں۔ آقا خلخالی نے اس رسید کو لیکر امام کے پاس جاتے ہیں امام اس رسید کو دیکھ کر لے لیتے ہیں اور فورا اپنی ایک رسید لکھ کر دیدیتے ہیں۔ آپ نے صرف آیت اللہ حکیم کے دفتر کی رسید کی تائید نہیں کی بلکہ اس کی جگہ پر ایک دوسری رسید دیدی کہ فلاں مبلغ رقم مجھے مل چکی ہے تا کہ اس شخص کی آبرو محفوظ رہے۔ یہ امام راحل کی بلند و بالا اور آراستہ روح کی عکاسی کرتا ہے اور آپ کی مقام مرجعیت کی شان و شوکت خصوصا آقا حکیم کی حیثیت اور آبرو کی جانب توجہ پر دلالت کرتا ہے۔