شہید لغت میں گواہ کو کہتے ہیں اور اصطلاح میں اسے شہید کہتے ہیں جو شہادت کی راہ میں قدم رکھے اور خدا کی راہ میں شہید ہوجائے۔ شہادت، موت کی ایک قسم نہیں ہے بلکہ (معقول حیات) کی ایک صفت کا نام ہے۔ کیونکہ معمولی زندگی تو اکثر انسانوں کو حاصل ہوتی ہے۔ انسان خود بھی اور لامتناہی سلسلہ کی بقا چاہتا ہے، لیکن معقول حیات میں انسان آلودگیوں سے پاک و صاف زندگی کا خواہاں ہوتا ہے کہ جس کی انتہا جذبہ الہی ہوتی ہے۔ لہذا شہید ہمیشہ زندہ ہے اور حیات و ممات حیات طیبہ کی ایک صفت ہے۔
شہید کی حیات
قرآن کریم نے شہداء کی ایک خصوصیت یہ بتائی ہے کہ وہ زندہ ہیں۔ اس سے مراد مادی زندگی نہیں ہے بلکہ روح کی زندگی ہے۔ اس دن وطن اور اسلام پر اپنی جاں نثار کرنے والے شہیدوں کی یاد تازہ کی جاتی ہے، شہید کے مقام و مرتبہ کو بیان کیا جاتا ہے اور اسے مختلف پروگرام کی شکل میں آئندہ نسلوں کے ذہن میں بٹھا جاتا ہے کہ قوم و ملت اور دین و شریعت کی حفاظت کی راہ میں جان دینے والے کوئی معمولی انسان نہیں تھے بلکہ انهوں نے اپنے آپ کو مادی دنیا سے نکال کر روحانی دنیا میں جگہ دی ہے۔ یہ زندہ ہیں، ان کا نام و نشان تابندہ ہے۔ یہ تاریخ کے اوراق پر سنہرے حروف میں درخشاں ہیں، ان کے نام سے دلوں کو حیات ملتی ہے۔ روحیں تازہ ہوتی ہیں۔ ان کے ذکر سے قلوب کو جلا ملتی ہے۔ ایمان و یقین میں اضافہ ہوتا ہے۔
شہدائے راہ حق کی دنیا کے خطہ خطہ پر عظمت بیان کی جاتی ہے اور ہر قوم و ملت، دین و شریعت میں ان کا احترام ہے۔ دنیا کا ہر انسان وطن پر فدا ہونے والوں اور انسانیت کو بچانے والوں کو یاد کرتی ہے۔ اسلام نے شہیدوں کو اتنی زیادہ اہمیت دی ہے اور قرآن نے متعدد مقامات پر ان کا تذکرہ کیا ہے کہ اس طرح سے کسی اور مذہب و ملت اور قوم میں نہیں ہے۔ شہداء کے نام پر جگہ جگہ کانفرنس ہوتی ہے۔ لوگوں کا بڑے سے بڑا اجتماع ہوتا ہے اور ہر شخص اپنے اپنے خیالات کا اظہار کرتا ہے۔ تا کہ آئندہ نسلوں میں ان کی وفاداری، جاں نثاری، قربانی اور ایثار کا ذکر باقی رہے اور بعد کی نسلیں اس سے درس لیں اور ان کو اپنی زندگی میں آئیڈیل بنائیں۔ ان کے ذکر و فکر سے حوصلہ ملتا ہے، دل قوی ہوتا ہے، خون میں حرارت اور گرمی پیدا ہوتی ہے۔
شہیدوں کی فضیلت کے بارے میں چھٹے امام حضرت امام جعفر صادق (ع) فرماتے ہیں: قیامت کے دن تین گروہ شفاعت کرے گا:
- انبیاء
- علماء
- شہیدان راہ حق
دوسری جگہ آپ (ع) فرماتے ہیں: عزت کی موت شہادت کے عنوان سے مرجانا ہے۔
کسی کی جاں نثاری اور قربانی کا ذکر کرنا، اس کی عظمت بیان کرنا اور اس کے جذبہ شہادت اور جوش عقیدت و محبت کا ذکر ہے۔ اور یہ همارا فریضہ ہے اور حق و انصاف کا تقاضا ہے کہ جس نے پوری انسانیت کے لئے قربانی دی ہے اس کا ذکر کرکے لوگوں کی دلوں کو قوی کریں اور اس کے حق میں انصاف کریں۔