اے حکمت الٰہی اور حقائق، مبدأ ومعاد کے علم کا حامل ہونے کے مدعی! اگر تم حقائق اور اسباب ومسبّبات کے عالم ہو، اگر واقعی تم صور برزخیہ اور جنت ودوزخ کے احوال سے آگاہ ہو تو تمہیں چین نہیں آنا چاہیے اور تمہیں اپنا سارا وقت عالم باقی کی تعمیر میں گزارنا چاہیے اور اس دنیا اور اس سے متعلق آرزوؤں سے منہ پھیر لینا چاہیے۔ تم جانتے ہو کہ کن مصیبتوں سے واسطہ پڑنے والا ہے اور کونسے ناقابل برداشت عذاب اور تاریکیاں ہمارے آگے ہیں ، تو تم نے الفاظ ومفاہیم کے پردے سے باہر قدم کیوں نہیں رکھااور کیا دلائل وبراہین حکمیہ نے ذراسا بھی تیرے دل پر اثر نہیں کیا؟ تو تمہیں جان لینا چاہیے کہ اس صورتحال میں تم مومنین اور حکما کے زمرے سے نکل کر منافقین کی صف میں شامل ہوگئے ہو۔ تف ہو اس شخص پر جس نے مابعد الطبیعیاتی علوم کے سلسلے میں اپنی عمر گزاری ہو اور کوشش کی ہو، لیکن فطرت کی مستی نے کوئی ایک حقیقت بھی اس کے دل میں داخل نہ ہونے دی ہو۔
اے معرفت، جذبے، سلوک، محبت اور فنا کے مدعی! اگر تم واقعی اہل اﷲ اور اصحاب قلوب اور نیکیوں کے حامل ہو تو {ہَنِیْئاً لَک} لیکن اس قدر شطحیات، تلوینات (حالت بدلنا) اور بیہودہ دعوے جو کہ حب نفس اور وسوسہ شیطان کی نشاندہی کرتے ہیں ، محبت اور جذبے کے منافی ہیں ۔ {أوْلِیٰائِي تَحْتَ قَبٰائِي لاٰ یَعْرِفُہُمْ غَیْرِي}۔ اگر تو حق تعالیٰ، اولیائ، محبین اور مجذوبین میں سے ہے تو خدا اس سے آگاہ ہے۔ لوگوں کے سامنے اپنے مقام ومرتبے کا اس قدر اظہار نہ کر اور بندگان خدا کے کمزور دلوں کو اس قدر خالق کی بجائے مخلوق کی جانب متوجہ نہ کر اور خدا کے گھر پر قبضہ نہ کر۔ جان لے کہ خدا کے بندے عزیز ہیں اور ان کے دل بہت قیمتی ہیں ۔ ان کے ذریعے خدا سے محبت کا کام لیا جانا چاہیے۔ خدا کے گھر کو اس قدر کھلونا نہ بنا اور اس کی عزت کی جانب ہاتھ نہ بڑھا۔ {فَاِنَّ لِلْبَیْتِ رَبَّاً}۔
پس اگر تو اپنے دعوے میں سچا نہیں تو، تو منافقین اور دوغلوں کے زمرے میں شامل ہے۔ میں بات یہیں پر ختم کرتا ہوں اور کلام کو اس سے زیادہ طول دینا مجھ رسوا کیلئے مناسب نہیں ۔
اے مصنّف کے لئیم نفس! تم جو کہ یہ کہہ رہے ہو کہ سیاہ دن کے بارے میں سوچنا چاہیے اور اس بدنصیبی سے نجات حاصل کرنی چاہیے، اگر تو درست کہہ رہا ہے اور تیرا دل تیری زبان کا ساتھ دے رہا ہے اور خلوت وجلوت میں اس کے ساتھ ہے تو پھر تو اس حد تک غافل کیوں ہے؟ تیرا دل سیاہ کیوں ہے؟ اور تجھ پر خواہشات نفسانی کیوں غالب ہیں ؟ اور تو موت کے خطرناک سفر کی فکر میں کیوں نہیں ہے؟ تیری عمر ختم ہونے کو ہے اور ابھی تک تو نے خواہشات نفسانی کو ترک نہیں کیا ہے! ساری زندگی تو نے شہوت، غفلت اور شقاوت میں گزار دی ہے۔ عنقریب موت آجائے گی اور تو اپنے برے اعمال واخلاق کا شکار ہوجائے گا تو دوسروں کو وعظ کرتا ہے لیکن خود نصیحت حاصل نہیں کرتا! تو منافقین اور دوغلوں کے زمرے میں ہے اور اندیشہ ہے کہ اگر اسی حالت میں تجھے موت آگئی تو، تو آگ کی دو زبانوں اور آتش کے دو چہروں کی صورت میں محشور کیا جائے گا۔
چہل حدیث (قدیم ایڈیشن)، ص 140