آیت اللہ حکیم کے سن 49ء میں انتقال کے بعد قم اور ایران کے بہت سارے بڑوں شہروں میں ان کے ایصال کی مجلسیں ہوئیں۔ اگر چہ وقت کی شاہی حکومت نے بہت زیادہ اضطراب اور گھٹن کا موحول بنادیا تھا لیکن اس قسم کے پروگرام انقلابیوں کے لئے مناسب محمل تھے۔ تا کہ امام خمینی (رح) کی مرجعیت عامہ کی کوشش کریں۔ یاد رہے کہ امام (رح) اگر چہ اس وقت مرجعیت کے منصب پر فائز تھے لیکن آقا حکیم کی مرجعیت کا دائرہ بہت وسیع تھا۔ امام (رح) اور آقا خوئی (رح) دوسرے درجہ کے مرجع شمار ہوتے تھے۔ بنابریں آقا حکیم کے انتقال کے بعد حضرت امام خمینی (رح) کی مرجعیت عامہ کے لئے کافی کوشش ہونی چاہیئے تھی اور ہوئی بالخصوص یہ کہ پہلوی حکومت بھی اس سلسلہ میں کوشاں تھی اور دوسرے افراد کو مرجع علی الاطلاق بنانے کی فکر میں تھی۔ اسی وجہ سے آقا حکیم کی رحلت کے بعد شاہ نے قم اور تہران میں آقا شریعتمداری اور آقا خوانساری کو تعزیت کا دو پیغام بھیجا۔