حضرت امام خمینی (رح) فرماتے ہیں: ہمارے ملک میں علمی اور تحقیقاتی دو مرکز ہیں ایک حوزہ اور دوسرا یونیورسٹی۔ بہت ساری ترقی اور بہت ساری پستی اور بے چارگی کا سرچشمہ یہی دو مراکز ہیں۔ یعنی اگر کامیابیاں ہمارے قدم چومتی ہیں تو انہی دو مراکز سے اور اگر ہم محرومیوں اور ناکامیوں کا شکار ہوتے ہیں تو انہی دو کی وجہ سے۔
امام خمینی (رح) کی نظر میں اگر ملک کے ان دونوں مراکز کی اصلاح ہوجائے تو پورے معاشرے کی اصلاح ہوجائے گی۔ اور اگر ملک کے ان دونوں اہم مراکز خطا کریں تو اس کا اثر پورے معاشرہ پر پڑے گا اور بہت سارے افراد کو ان سے نا امید اور آئندہ سے بد گماں کردیں گے کیونکہ اکثریت کی امیدوں کا مرکز یہی دو مراکز ہیں۔ امام خمینی (رح) ان دونوں طبقہ سے ملاقات میں مختلف مناسبتوں سے اس کی جانب متوجہ کراتے رہے ہیں۔ آپ ان کی اصلاح اور فساد کے عواقب سے بخوبی واقف تھے۔ اسی لئے مسلسل بیدار کرتے رہتے تھے کہ علم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ خودسازی بھی ضروری ہے۔ مقام و منصب سے دوری، جاہ طلبی سے گریز اور اس قسم کے مسائل سے پرہیز ضروری و لازمی امر ہے۔ کیونکہ معاشرہ میں سرگرمی کی اہمیت کے پیش نظر ہوا و ہوس اور مقام و منصب سے دوری اور اقتدار سے پرہیز ہونا چاہیئے۔
اسی لئے ایک گفتگو میں امام خمینی (رح) نے فرمایا: یونیورسٹیاں انسان بنانے کا مرکز ہوں خواہ روحانی یونیورسٹیاں ہوں یا آپ کی یونیورسٹی ہو۔ اگر انسان کو انسان بنادیا جائے تو ساری چیز معنوی ہوجائیں گے یعنی مادیات بھی معنویات کی طرح ہوجائیں گی اور اس کے برعکس بھی ہوسکتا ہے۔ اگر شیطان گروہ ہوں گے اور ہماری اور آپ کی یونیورسٹی سے منحرف اور گمراہ انسان پیدا ہوں تو معنویات بھی مادیات کا رنگ اختیار کرلیں گی اور مادیتوں میں فانی ہوجائیں گے۔ (صحیفہ امام، ج 8، ص 61)
آپ ایک دوسرے مقام پر علماء اور روحانیوں کو منتبہ کراتے ہیں کہ آپ لوگ عوام کے ہادی اور رہبر ہیں۔ لہذا آپ لوگوں کو چراغ ہونا چاہیئے۔آپ کو نور و روشنی ہونا چاہیئے۔ آپ حضرات اپنے نفوس کا تزکیہ کیجئے۔ اپنے باطن کی اصلاح کیجئے، اپنے دل سے حب دنیا کو نکال دیجئے، کیونکہ تمام خطاؤں کی جڑ حب دنیا ہے اور شہرت کی چاہت ہے لہذا ان تمام چاہتوں کو اپنے دل سے نکال دو۔ اس محبت کا گلا گونٹ دو۔ اسلام کی زندگی کے سہارا زندہ رہو اور الہی زندگی گذارو۔ (صحیفہ امام، ج 6، ص 284)
یقینا قرآن و حدیث نیز زندگی کے تجربات کی روشنی میں یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہے کہ ساری برائیوں اور خرابیوں کی جڑ مال و مقام، جاہ و حشم، دولت و اقتدار اور شہرت کی بھوک ہی ہے۔ جس کی وجہ سے خاندانی روابط، دوستی، انسانی رشتے خراب ہوتے ہیں اور بہت ساری برائیاں جنم لیتی ہیں۔ اور انسان ایک دوسرے کا جانی دشمن بنتا ہے۔ اگر یہی چاہت نہ ہو تو پھر کسی کو کسی سے کوئی سروکار نہ ہو، کوئی کسی سے خوفزدہ نہ ہوگا بلکہ سب مطمئن ہوں گے کہ ہمیں کسی سے کوئی خطرہ نہیں ہے کیونکہ سب کی فکر انسانی، الہی اور اسلامی ہے۔ سب ایک دوسرے کا خیر خواہ ہے۔ خداوند عالم ہم سب کو ایک سچا انسان اور اسلام کا پیروکار بنائے۔ آمین۔