حضرت امام خمینی (رح) سن 49 ش میں آقا حکیم کی رحلت کے بعد اور اپنی مرجعیت عامہ کے تحقق کے موقع پر حجاج بیت الله الحرام کے نام بہت اہم اور موثر پیغام بھیجا۔ یہ پیغام اس وقت صادر ہوا جب ایرانی عوام ایک طرف گھٹن کے دور سے گذر رہی تھی اور منحوس پہلوی حکومت اور ساواک کی خوفناک ٹیم اپنے مخالفین کو دردناک طریقہ سے کچلنے میں مشغول ہوگئی۔ اس زمانہ میں حکومت نے اکثر مجاہد گروہوں کو کچل رہا تھا اور بہت سارے علماء اور روحانیوں کو جلاوطن کردیا قید کردیا تھا اور کسی کو سانس لینے کی اجازت نہیں تھی۔
اس درجہ کہ لوگوں کو معمولی معمولی بات پر جیسے حضرت امام یا ڈاکٹر شریعتی کی کوئی کتاب رکھنے پر گرفتار کرلیتی تھی اور کم سے کم ایک سال تک اس کے گھروالوں کو ملنے کی اجازت نہیں دیتے تھے۔ اس کے بعد بھی ہزاروں مشکل خرابی سے ملاقات کی اجازت دیتے تھے۔
دوسری طرف برسہا برس کےشدید اضطراب، گھٹن اور افراتفری کے ماحول کے بعد معاشرہ کی سطح بالخصوص جوانوں اور یونیورسٹی کے اسٹودنٹ کے درمیان تحریک اٹھ چکی تھی جس میں مرحوم ڈاکٹر شریعتی کا بہت بڑا ہاتھ تھا۔ اس نازک اور اہم موقع پر حضرت امام لوگوں کی ضرورت اور ان کی توجہ کے مد نظر کہ کوئی تو اس طرح کی آواز اٹھائے اور امید کی کرن پھوٹے یہ پیغام دیا۔ چونکہ حج کے موقع پر تمام ایرانیوں کے کانوں تک اس الہی آواز کے پہونچانے کا حسین موقع تھا لہذا امام نے حجاج کو خطاب کرکے یہ پیغام لکھا اور کچھ طلاب اور فضلاء کے ہمراہ مکہ میں یہ پیغام بھیجا اور ان لوگوں نے بھی کافی کوشش سے وسیع پیمانے پر حجاج کے درمیان اعلانیہ تقسیم کیا۔