علمائے علم اخلاق نے ترکیہ نفس اور تطہیر باطن اور اللہ کی جانب سیر و سلوک کے لئے غفلت کو مانع اور "بیداری" کو ضروری شرط جانا ہے۔ انسان کا اپنے نقائص کو جانا اور اس کی جانب توجہ اور کمال تک پہونچنے کی ضرورت کے ادراک کو سلوک کی راہ میں حرکت کرنے کا مقدمہ واجب کہا ہے۔
اس وضاحت کے ساتھ انسان ادراک کرے کہ مسافر ہے اور مسافر کو زاد و راحلہ اور رہنما کی ضرورت ہوتی ہے اور اگر غفلت کرتا ہے تو راستہ ہی میں رہ جائے گا بالخصوص یہ کہ اس راہ میں ڈاکو اور بدمعاش گھات لگائے بیٹھے ہیں۔ یہ غفلت اور غنودگی اسے غارت گری اور تباہی کی آفت اور نقصان میں مبتلا کرے گی۔
قابل غور بات یہ ہے کہ قرآن کریم میں یہ سفر اور حرکت ایک یقینی امر البتہ ضروری بتایا گیا ہے۔ جس مسافر کو ضروری سفر در پیش ہو وہ اپنی حرکت اور سفر کے مطابق زاد راہ اور توشہ سفر فراہم کرے گا۔
جو کچھ رسولخدا (ص) کی روایت میں ذکر ہوا ہے یہ ہے کہ "من استوی یوماہ فھو مغبون؛ جس کا دو دن یکساں اور برابر ہو وہ دھوکہ میں ہے" (بحار الانوار، ج 68، ص 173) اسی نکتہ کی طرف اشارہ ہے بالخصوص کہ روایت میں دن سے مراد اصطلاحی دن نہیں ہے، کہ جو شخص بھی دو لحظہ مساوی گذارے وہ نقصان اور خسارہ میں ہے۔ کیونکہ جو چیز سفر کو یقینی اور قطعی بناتی ہی وہ جانتا ہے کہ سکون اور حرکت نہ کرنا ہر آن اس کے لئے ناقابل تلافی نقصان رکھتا ہے۔ کیونکہ اس نے اپنے سکون کے ہر لمحہ میں اپنی عمر کا ایک لحظہ گنوادیا اور اس کے مقابلہ میں اس نے کچھ حاصل نہیں کیا۔
ہماری دینی ثقافت میں غفلت ایک قسم کی رجس و کثافت بتائی گئی ہے، یہاں تک کہ ائمہ معصومین (ع) کی پاکیزہ ہستیوں نے اپنے دعاؤں اور مناجات میں رجس غفلت سے طہارت کے لئے خدا کا شکر ادا کیا ہے۔ اہم نکتہ یہ ہے کہ یہ تعبیرین کنایہ یا بطور مجاز استعمال نہیں ہوئی ہیں؛ کیونکہ انسان کے تمام ظاہری اعمال کے پیچھے ایک باطن ہے جو دوسری دنیا میں ظاہر ہوگا۔ یہ نکتہ بھی پوشیدہ نہیں ہے کہ ہم پر عارض ہونے والی ہر آفت کا سرچشمہ ہماری اندرونی غفلت ہے اگر قلعہ اعتقاد اور ہمارے اندر توجہ مستحکم ہوجائے تو پھر کسی بھی آفت کا ہمیں نقصان نہیں پہونچے گا۔
اس طرح سے غفلت تزکیہ روح اور تطہیر باطن اور سلوک کے مرحلوں کو طے کرنے میں مانع بتایا گیا ہے۔ انسان کی روح ہر آن اور ہر لمحہ ایک نیا تجربہ حاصل کرتی ہے اور یہ سارے مراتب ایک جدید حکم اور نئے دستور کے محتاج ہیں۔ البتہ حکمت عملی یا اخلاق میں اس کی وضاحت کی جاتی ہے۔ اس بیان کے ساتھ کہ جو انسان اپنے اندرونی موجودات سے غافل ہے، در حقیقت وہ اخلاقی موضوعات کا ادراک نہیں کرسکتا اور فطرتا اخلاقی احکام کی تشخیص دینے کی صلاحت نہیں رکھتا اور چار و نگار گناہ کے جال میں پھنس جاتا ہے۔