بحضورِ امامِ انقلاب
شعیب شاہد
فقیرِ ذی وقار نے
امام ِ انقلاب نے
خُدائیوں کے باب میں
وہ دلخراش داستان غم لکھی
حکایتِ الم لکھی
کہ پھر کسی نے اس کے سوگ میں
جو چشم عالمِ وجودِ نم لکھی
تو کم لگھی
خدا کی بارگاہ میں
وہ انتہائے عجز تھا
وہ بے پناہ غیور تھا
وہ نور تھا،
وہ غیب تھا، حضور تھا
وہ موسی کلیم تھا، وہ طور تھا
امامِ بوریا نشیں کے نقشِ پا
ہمارے واسطے نشانِ راہ ہیں
قدم، جہاں پناہ ہیں
وہ عرشِ مرتبت قدم
کہ جن پہ سب کو ناز تھا
کہ جن پہ سب کو ناز ہے