انبیائے الہی کے درمیان بہت کم انبیاء ہوں گے جنہوں نے رسولخدا (ص) کے برابر اپنی امت کی ایذا رسانی اور ان کے مظالم کا سامنا کیا ہوگا بلکہ پیغمبر اکرم (ص) کے سوا کوئی نبی نہیں ہے جس نے اپنی امت کی طرف سے اذیت برداشت کی ہو؛ کیونکہ آپ (ص) نے خود ہی فرمایا ہے کہ مجھ سے زیادہ کسی نبی نے اذیت برداشت نہیں کی ہے۔ اس کے باوجود آپ نے اپنی زندگی میں کبھی بے صبری اور بے تابی کا مظاہرہ نہیں کیا اور نہ ہی اس کا گلہ اور شکوہ کیا اور نہ ہی نازیبا اور ناروا کسی کے ساتھ کوئی سلوک کیا ہے۔
اس وقت کفر و شرکت کی گھٹا ٹوپ جہالتوں، عداوتوں اور جسارتوں نے آپ کے صبر و تحمل میں اضافہ ہی کیا اور کبھی آپ کے پائے استقلال میں لغزش نہیں آئی اور اپنے مشن کو آگے بڑھاتے رہے۔ دشمنوں سے بھی اپنی امانت اور اپنے اخلاق و کردار کا کلمہ پڑھواتے رہے، اپنے صبر و تحمل اور اپنے حلم و بردباری کا لوہا منواتے رهے۔
جنگ احد میں آپ کے دندان مبارک ٹوٹے اور آپ کا چہرہ انور زخمی ہوا اور یہ بات آپ کے اصحاب و انصار پر سخت گراں گذری اور ان لوگوں نے حضرت سے کہا بھی کہ آپ دشمنوں کے لئے بد دعا کریں، ان پر لعنت بھیجیں لیکن رحمت للعالمین پیغمبر (ص) نے کبھی بد دعا نہیں کی اور غایت درجہ بزرگی کے ساتھ فرمایا: میں لعنت کرنے اور بد دعا کرنے کے لئے مبعوث نہیں ہوا ہوں بلکہ میں لوگوں کو حق کی طرف دعوت دینے(راہ حق کی شناخت کرانے اور اس راہ پر چلانے) کے لئے مبعوث ہوا ہوں۔ میں ان کے لئے رحمت بنوں۔ خدایا! میری امت کو ہدایت کرے کیونکہ یہ لوگ جہالت و نادانی کا شکار ہیں۔
ایک دوسری روایت کے مطابق آنحضرت سے کہا گیا:
اے رسولخدا ! نوح نے اپنی قوم کے لئے بد دعا کی اور خدا سے کفار کو روئے زمین سے خاتمہ کی درخواست کی اور آپ اتنے سارے مصائب و آلام کے باوجود خداوند عالم سے ان کی ہدایت کی دعا کررہے ہیں جبکہ اگر چاہیں تو آپ کی بددعا سے یکسر نابود ہوجائیں گے۔ لیکن آپ یہ سب برداشت کرتے ہوئے ان کے لئے دعا کررہے ہیں"خدایا میری قوم کو بخش دے کیونکہ یہ لوگ جانتے نہیں ہیں۔"
یہ رسولخدا (ص) کا حلم تھا اور آپ کی قوت برداشت تھی۔ کیوں نہ ہو! آپ مکارم اخلاق کو تمام کرنے والے تھے۔ آپ صبر و استقامت کا مجسمہ تھے، آپ نے حلم و بردباری ہی سے زمانہ میں خدا کی توحید کا پیغام عام کیا، اس کے بندوں کو ضلالت و گمراہی کے گھٹا ٹوپ اندھیروں سے نکال کر علم و عرفان، ایمان و اعتقاد اور نور و روشنی کے اجالے میں لائے اور پوری دنیا میں اسلام کا پیغام عام کیا۔ لوگوں کو اخلاق سے خدا کے سامنے تسلیم ہونے پر مجبور کیا۔ خدا کی توحید بچائی، انسانیت کا بول بالا کیا۔ کفر و الحاد کی چولیں ہلادیں، باطل کا قلع و قمع کردیا۔ فتنہ و فساد کے ماحول کو امن و امان کا معاشرہ بنادیا۔ صحرا نشینوں کو اٹھنے، بیٹھنے، چلنے پھرنے کے آداب بتائے۔ دور جاہلیت کے دلدادہ افراد کو حسن معاشرت اور ترقی کی راہ دکھائی، علم و آگہی سے نوازا، انسان کی انسانیت کا مفہوم بتایا۔
یہ سب آپ کے اخلاق کریمانہ اور پسندیدہ عادات و اطوار سے ممکن ہوا، آج اگر دنیا میں کچھ باقی ہے تو آپ کا کردار باقی ہے۔ اور وہ اہم کردار صبر و تحمل اور حلم و بردباری کے دولت سے مالامال ہونا ہے۔ یہ بردباری اتنی واضح تھی کہ جنگل میں زندگی گزارنے والے عربوں کو بھی یقین تھا کہ آپ صبر کا دامن کبھی نہیں چھوڑیں گے۔