اس وقت مسلمان سربراہوں ، سلاطین اسلام اور اسلامی ممالک کے صدور کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے اختلافات کو ختم کردیں ۔ عرب وعجم کی بحث ختم کردیں ۔ ترک اور فارس کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے۔ اسلام (کلمہ اسلام) اور وہی روش اپنائیں جو تحریک کے دوران پیغمبر اسلام ﷺ نے اپنائی تھی۔ تابع اسلام بنیں ۔ اگر یہ سب اپنے اتحاد کی حفاظت کریں اور اختلافات کو ختم کردیں جو کبھی کبھی سر اٹھا لیتے ہیں ۔ اگر سب مل کر ایک ہوجائیں تو پھر۔۔۔ کہا جاتا ہے کہ مسلمانوں کی آبادی ستر کروڑ ہے لیکن متفرق وپراکندہ ستر کروڑ دس لاکھ کے برابر بھی نہیں ہیں ۔ ستر کروڑ متفرق وپراکندہ مسلمانوں کی کوئی حیثیت نہیں ۔ اگر اس ستر کروڑ میں سے صرف بیس کروڑ، چالیس کروڑ ایک ساتھ ہوجائیں ، ایک دوسرے کی طرف دوستی اور برادری کا ہاتھ بڑھائیں ، اپنے حدود اور دائرے کی حفاظت کریں تو۔۔۔ لیکن اسلامی معاشرہ جو کہ ہم تمام لوگوں کے درمیان مشترک ہے، کلمہ توحید جو کہ سب کے درمیان مشترک ہے، اسلامی مفادات جو کہ سب کے مشترک ہیں ان سب کو متحد اور ایک کریں ، اگر یہ سب ایک فکر ونظر کے ہوگئے تو کبھی بھی یہودی فلسطین کا لالچ نہیں کریں گے، ہندو کبھی بھی کشمیر کو للچائی نظروں سے نہیں دیکھیں گے۔ وجہ یہ ہے کہ وہ تم کو متحد نہیں ہونے دیتے ہیں ۔ لیکن وہ جان لیں اور بخوبی جانتے بھی ہیں کہ وہ لوگ تمہارے ذخائر کو تم سے چھین لینا چاہتے ہیں ، تمہاری ثروت کو مفت میں لے جانا چاہتے ہیں ، تمہارے زمینی اور فوق الارض ذخائر کو ہڑپنا چاہ رہے ہیں ۔ وہ عراق اور ایران کو کبھی متحد نہیں ہونے دیں گے۔ اسی ایران اور مصر، ترکی اور ایران کو کبھی متحد اور ایک آواز نہیں ہونے دیں گے۔ وہ کبھی اس اتحاد کو عملی جامہ نہیں پہنانے دیں گے۔ لیکن یہ تمہاری ذمہ داری نہیں ہے، بلکہ حکام کی یہ ذمہ داری ہے کہ ایک جگہ بیٹھ کر تبادلہ خیال کریں ، اپنے وطن کی سرحدوں کو بچائیں ۔ اپنی سرحدوں کی حفاظت کے بعد اس بیرونی دشمن کے مقابل متحد ہوجائیں ، چونکہ وہ تمہارے لیے بہت زیادہ مضر ہے۔ اگر ایک آواز ہوگئے تو یہ مٹھی بھر یہودی غاصب چور جو فلسطین میں گھس آئے ہیں انہوں نے دس لاکھ سے زیادہ مسلمانوں کو دس سال، بلکہ اس سے بھی زیادہ عرصے سے متفرق کر کے رکھ دیا ہے اور اسلامی حکومتیں فقط عزادار بنی تماشا دیکھ رہی ہیں ۔ اگر سب کی آواز ایک ہوجائے تو یہ مٹھی بھر یہودی چور کیسے فلسطین کو تم سے چھین سکتے ہیں اور مسلمانوں کو فلسطین سے باہر نکال سکتے ہیں اور تم کچھ بھی نہیں کرسکتے ہو؟ اگر واقعی اتحاد قائم ہوجائے تو پھر کیسے ممکن ہے کہ بدبخت ہندو پیارے کشمیر کو ہم سے چھین لیں ، مسلمانوں سے چھین لیں اور وہ کچھ بھی نہ کرسکیں ۔
یہ سب ایسی باتیں ہیں جو روز روشن کی طرح واضح ہیں ، یہ اور بات ہے کہ یاد دہانی کراتے رہنا بھی ضروری ہے۔ وہ بھی ان باتوں کو سمجھتے ہیں لیکن پھر بھی غور وفکر کرنا چاہیے، بیٹھ کر آپس میں گفتگو کرنا چاہیے اور اختلافات کو بھلا دینا چاہیے۔ اس وقت اسلام تمہارے پاس ہے۔ اب مسلمان حکمرانوں ، سلاطین اسلام اور صدور، بزرگان اور وہ لوگ جن کے پاس سربراہی ہے ان سب کو جان لینا چاہیے کہ یہ سربراہی اور ذمہ داری خدا نے انہیں عطا کی ہے۔ لہذا جب وہ قوم کے حاکم وسردار ہوگئے تو ان کی کچھ ذمہ داریاں ہیں ۔ کسی قوم کا حاکم وسردار ہونے کے بعد اس قوم وملت کی زندگی میں پیش آنے والے حالات کے سلسلے میں کچھ ذمے داریاں عائد ہوجاتی ہیں ، سربراہ جوابدہ ہیں اور دوسرے ان کے محتاج ہیں ۔
اور جب تک اتحاد قائم نہیں ہوگا اور جب تک مسلمان حکمراں اپنے درمیان اتحاد کو قائم نہیں کریں گے اور جب تک اسلام سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی مشکلات کے بارے میں غور وفکر نہیں کریں گے، اسلام کی مظلومیت اور مصیبتوں اور احکام اسلام سے متعلق مشکلات، اسلام اور قرآن کریم کی غربت اور بے چارگی کے بارے میں فکرمند نہیں ہوں گے اس وقت تک سرداری حاصل نہ کرسکیں گے۔ لہذا انہیں غور وفکر کرنا چاہیے، وارد عمل ہونا چاہیے تاکہ سرداری حاصل کرسکیں اور اگر ان چیزوں پر عمل کریں گے تو رہبر دنیا ہوجائیں گے۔ اگر اسلام اسی طرح دنیا والوں کو پہچنوائیں جس طرح ہے اور اسی طرح عمل کریں جس طرح حکم دیا گیا ہے تو یقینا سیادت وسرپرستی وقیادت تمہارا حق ہے۔ عظمت وبزرگی تمہارا مقدر ہے { لِلّٰہِ الْعِزَّۃُ وَلِرَسُولِہِ وَلِلْمُؤمِنِیْن}۔
(صحیفہ امام، ج ۲، ص ۵)