25/ ربیع الاول کو جنگ دومة الجندل ہوئی ہے۔ جنگ دومة الجندل کے بارے میں 5/ نظریہ ہے:
1۔ چوتھی صدی ہجری کے اواخر میں واقع ہوئی ہے۔
2۔ غزوہ ذات الرقاع 9/ ماہ چار دن کے بعد ہوئی ہے۔
3۔ غزوہ خندق کے بعد سن 5 ھ ق میں ہوئی ہے۔
4۔ ماہ ربیع الاول سن 5/ ھ ق میں ہوئی ہے۔
5۔ سن 6/ ھ ق میں ہوئی ہے۔
مجھے لگتا ہے دومة الجندل پر کئی بار لشکر کشی ہوئی ہے۔ ایک سن 4/ کے اواخر میں یا سن 5/ کے اوائل میں اور دوسری سن 6/ ھ ق میں۔ یہاں پر جو کچھ ذکر کیا جارہا ہے وہ پهلی بار سے مربوط ہے کہ جس میں رسولخدا (ص) خود شریک تھے۔ واقعہ یوں ہے کہ رسولخدا (ص) کو خبر دی گئی کہ دومة الجندل کی بڑی بازار میں مقامی تاجروں نے ان تاجروں کے لئے مزاحمت ایجاد کردی ہے جو وہاں کے نہیں ہیں۔ اور ان کے حق کو ضائع کررہے ہیں اور آخر میں بیابان اور جنگلوں میں رہنے والے بھی ان سے مل گئے ہیں اور مدینہ کے باڈر پر حملہ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ دوسری طرف سے رسولخدا (ص) اپنے تبلیغی پروگرام میں روم کے ماتحت حکومت شام کے جنوب کے باڈر سے قریب ہونا چاہتے تھے۔ اس لئے اصحاب سے مشورہ کرکے حضرت سے عرض کیا گیا کہ " دومة الجندل جو شام کے باڈر اور مشرقی روم سے قریب ہے۔ آپ کے مقصد کے لئے مناسب جگہ ہے اور اگر وہاں قریب ہوگئے اور وہاں کے لوگوں کو اپنا مطیع فرمان بنالیا تو قیصر روم یعنی روم کا بادشاہ خطرہ محسوس کرے گا اور تبلیغ کے لئے مناسب راہ ہموار ہوگی۔"
ان دونوں دلیلوں کی روشنی میں پیغمبر (ص) نے دومة الجندل پر لشکر کشی کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ اور اس کے لئے اپنے اصحاب کو الرٹ رہنے کا حکم دیا اور سباع بن عرفطہ کو مدینہ میں اپنا جانشین بنایا اور 25/ ربیع الاول سن 5/ ھ ق کو ایک ہزار پر مشتمل لشکر کے ہمراہ شہر سے روانہ ہوگئے۔ اس لشکر میں راستہ کا جاننے والا بنی عذرہ قبیلہ سے مذکورہ شخص بھی موجود تھا۔ جب لشکر دومة الجندل سے قریب ہوا تو وہاں پر قرائن کو دیکھ کر لوگوں نے رسولخدا (ص) سے فرمایا: ان کے جانور اسی آس پاس میں چر رہے ہیں، آپ یہیں ٹھہرئیے تا کہ میں جاکر ان لوگوں کی موقعیت کا پتہ لگاؤں۔
رسولخدا (ص) نے موافقت کی اور مذکور نے چھان بین شروع کردی۔ کچھ دیر بعد دشمن کے اونٹ اور گوسفند کا پتہ چلا اور ان کی نسبی موقعیت کی پیغمبر (ص) کو خبر دی جاتی ہے۔ اس مقام پر حملہ کرتے ہیں جہاں کی شناخت ہوچکی ہے لیکن کچھ گوسفندوں اور چند اونٹوں اور چرواہوں کے انہیں کوئی اور چیز نہیں ملتی ہے۔ جانوروں کے گلوں پر تصرف کرکے چرواہوں کو گرفتار کرتے ہیں۔ چو چرواہے فرار کرگئے تھے وہ جا کے دومة الجندل والوں کو اسلامی لشکر کے حملہ کرنے کی خبر دیتے ہیں وہ لوگ یہ خبر سن کر کسی نہ کسی گوشہ میں چھپ جاتے ہیں۔ جب لشکر اسلام اہل جندل کے اصلی مقام اور مرکز شہر تک پہونچتا ہے اور دیکھتا ہے کہ یہاں کوئی نہیں ہے تو کسی مڈ بھیڑ اور جنگ کے بغیرہی وہاں سکونت اختیار کرلیتا ہے تا کہ ہر قسم کے اجتماعی خطرہ کو دور کرے۔
ان چند دنوں میں دور اور نزدیک کے علاقہ سے مختلف گروہ بھیجا جاتا ہے۔ لیکن کسی گروہ کو جندل والوں کا سراغ نہیں ملتا۔ صرف محمد بن سلمی کے گروہ نے ایک جندلی مرد کو دیکھا اور اسے اسیر کرلیا۔ جب اسے رسولخدا (ص) کے پاس لاتے ہیں تو حضرت اس سے وہاں کے لوگوں کے بارے میں سوال کرتے ہیں کہ کہاں گئے اور کیا ہوگئے ہیں؟ وہ جواب دیتا ہے ان لوگوں نے کل جیسے ہی یہ سنا کہ آپ لوگ ان کی طرف آرہی ہیں تو فرار کرگئے۔ پیغمبر (ص) مزید چند دنوں تک دومة الجندل میں رہے اور اس مدت میں مذکورہ قیدی کو اسلام کی دعوت دیتے ہیں اور وہ مسلمان ہوجاتا ہے۔
آخر کار اسلامی لشکر ربیع الآخر کے مہینہ میں مدینہ کے لئے روانہ ہوجاتا ہے اور اس ماہ کی 20/ تاریخ کو مدینہ پہونچ جاتا ہے۔