امام خمینی (رح) صحیح اور درست اطلاعات اور آگاہی اخذ کرنے کا ایک عملی نمونہ تھے، آپ بے حد ذہین ہونے کے ساتھ ساتھ، معاملات کو درک کرنے کی بھی بہت زیادہ صلاحیت رکھتے تھے، ہر روز تازہ ترین بولٹن (خطوط) آپ کے پاس دیکھنے کو ملتے، کہ جن کو آپ پڑھا کرتے تھے۔ آپ، عوام کے خطوط کا بھی بر وقت مطالعہ کیا کرتے تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ آپ بین الاقوامی مسائل کے بارے میں بہت حساس تھے اس لئے آپ باقاعدہ طور پر انٹرنیشنل ریڈیو سنا کرتے تھے اور دشمنوں کی انقلاب کے بارے میں آراء و نظریات سے آگاہ رہتے۔ آپ دوسرے ممالک کی خبریں، مختلف چینلز سے سنتے تا کہ حقیقت تک رسائی حاصل کرسکیں، کیونکہ ہر چینل ایک خبر کو اپنے مخصوص انداز میں کاسٹ کرتا ہے۔ لہذا آپ اس طرح سے مختلف چینلز سے ایک خبر کو سن کر اس کے بارے میں تحقیق کیا کرتے تھے۔ ایک چینل کی خبر کو کبھی بھی قطعی، حقیقی اور سچی بات سمجھ کر اس پر اکتفا نہیں کیا کرتے تھے۔ اس طرح آپ کے ذہن میں اس زمانے کے تمام مسائل کا ایک حقیقی نقشہ بن چکا تھا، اس لئے آپ نے ان کی طبقہ بندی کی ہوئی تھی۔ خصوصا انٹرنیشنل سیاست کے مسائل، اقتصادی مسائل، عمومی افکار و آراء، حوزہ کے مسائل اور اسی طرح یونیورسٹیوں کا مسئلہ کہ جن کے بارےمیں آپ بے حد حساس رہا کرتے تھے، اور ان تمام موضوعات پر آپ کا ملا آگاہی رکھتے تھے۔ ہمیشہ آپ باقاعدہ طور پر ان مسائل کے بارے میں، مختلف چینلز کے ذریعے دنیا کی تازہ ترین خبروں سے آشنا رہا کرتے تھے۔ آپ (رح) کا یہ طریقہ آپ (رح) کی زندگی کے آخری دن تک جاری رہا۔ آپ (رح) کبھی بھی کسی ملک کی آنکھیں بند کر کے حمایت نہیں کیا کرتے تھے بلکہ آپ پہلے تمام مسائل کو ایک جگہ اکٹھا کرتے اور ان کے مثبت اور منفی تمام پہلوؤں پر نظر کرنے کے بعد بڑے تامل کے ساتھ کوئی فیصلہ کرتے۔
آپ کسی واقعہ کے بارے میں تمام اطلاعات کے مل جانے اور تمام افراد کی، اس موضوع پر باتیں سن لینے کے بعد اپنی نظر کا اظہار کیا کرتے تھے۔ اس طرح مختلف شعبوں کے افراد بھی آپ (رح) کے ساتھ رابطے میں تھے۔ واقعات اور مسائل کے تجزیہ اور تحلیل میں بھی آپ بہت ٹھوس بنیادوں پر کیا کرتے تھے۔ اس لئے آپ (رح) کی زندگی کے آخری دنوں تک، آپ (رح) سے لوگ اس بارے میں رجوع کرتے رہتے تھے۔ لہذا بہت سارے پیچیدہ اور مختلف مسائل کو آپ بڑی تیزی سے درک کرلیا کرتے تھے اور بلا فاصلہ ان کا رد عمل ظاہر کرتے۔ اس کے علاوہ آپ (رح) کی یہ بھی ایک منفرد خصوصیت تھی کہ جب کوئی آپ (رح) سے بات کرتا تو آپ اس کی تمام باتوں کو غور سے سنتے، یہاں تک کہ اس کی ساری باتیں ختم ہوجاتی اور آپ (رح) خاموشی سے سنتے رہتے، اور آخر پر آپ متکلم کی بات کا نتیجہ پیش کرتے کہ جو بالکل حقائق پر مبنی ہوتا تھا۔ اسی طرح آپ کے کسی بات پر احتجاج کے اندر بھی کسی خاص مسئلے کا راہ حل موجود ہوتا تھا۔