3/ ربیع الاول سن 64 ھ ق کو مکہ میں آتش زنی کی گئی، مکہ کو جلادیا گیا۔ جب مسلم بن عقبہ نے شامی لشکر کے ہمراہ اہل مدینہ کو قتل کرنے کے لئے روانہ ہوا اور مدینہ میں آیا اور وہی کیا جو سوچ کر آیا تھا۔ جب مدینہ میں اپنا کام تمام کرچکا تو یزید کے حکم سے عبداللہ بن زبیر کو ہٹانے کے لئے مکہ روانہ ہوا۔ ابن زبیر نے معاویہ کے مرنےکے بعد یزید کی بیعت نہیں کی اور کعبہ میں سکونت اختیار کرکے لوگوں کو اپنی بیعت کی دعوت دی تھی۔ جب ابن عقبہ مشہور مقام تک پہونچا اورتو واصل جہنم ہوگیا۔ اس ملعون کے مرنے کے بعد حصین بن نمیر شامی لشکر کا سپہہ سالار ہوگیا اور چاروں طرف سے مکہ کو گھیر لیا۔ عبداللہ بن زبیر مختار بن ابی عبیدہ ثقفی اور دیگر بیعت کرنے والوں کے ہمراہ جاکر خانہ خدا اور حرم امن الہ میں پناہ لے لی۔
شامی لشکر پہاڑوں کی بلندی جہاں سے مکہ کے گھروں اور مسجد الحرام کو دیکھا جاسکتا تھا پر جمع ہوگیا اور منجنیق تیار کرکے مسلسل پتھر اور تیل مکہ اور مسجد الحرام پر پھینکتے رہے اور روئی اور کپڑوں کو تیل میں ڈبو کر خانہ خدا پر ڈالتے اور آگ لگادیتے تا کہ خانہ کعبہ جل جائے اور عمارت گر جائے۔
لیکن خداوند قہار نے یزید ملعون کو مہلت نہیں دی اور واصل جہنم کردیا۔ اس کے مرنے کی خبر مکہ پہونچی اور ابن نمیر نے جنگ روک دی اور ابن زبیر سے جنگ کرنے کا ارادہ ملتوی کردیا اور اپنے لشکر کے ہمراہ شام کے لئے روانہ ہوگیا۔
یزید اپنی بیعت کا طالب تھا اور مسند خلافت پر متمکن تھا۔ جس طرح ہر ظالم و جابر کی یہی خواہش ہوتی ہے کہ سارے لوگ اس کے سامنے سر تسلیم خم کریں، کوئی اس کے خلاف سر نہ اٹھائے، کوئی آواز بلند نہ کرے۔ صدائے احتجاج بلند نہ کرے، اس کے کردار پر انگلی نہ اٹھائے۔ اور عبداللہ بن زبیر اپنے آپ کو اس منصب کا حقدار سمجھ رہا تھا جبکہ نہ یزید خلافت کا اہل تھا اور نہ عبداللہ بن زبیر اور دونوں ہی حق خلافت الہیہ کے غاصب تھے۔ دونوں ہی کا جذبہ دنیاوی حکومت تھا، لوگوں کو اپنی حکومت میں لانا تھا، دونوں ہی غاصب اور ظالم تھے۔ لیکن ظالم تو یہی چاہتا ہے کہ سارے لوگ اس کی سنیں، اس کی اطاعت کریں، کوئی اس کے حکم کے خلاف ورزی نہ کرے۔ دونوں ہے کا مقصد دنیا طلبی اور جاہ پسندی تھا۔ دونوں ہی الہی اغراض و مقاصد سے دور تھے۔ دونوں ہی بے دینی کا پیکر اور مظہر تھے۔
بس فرق یہ تھا کہ یزید کھلم کھلا فسق و فجور کررہا تھ اور عبداللہ بن زبیر اسلام کی حمایت کی عبا اوڑھ کر فسق و فجور اور باطل پرستی کررہا تھا۔ دونوں ہی گندے اور اپنے زمانہ کے فاسق ترین افراد تھے۔ ان دونوں کو نہ اسلام کی کوئی فکر تھی نہ قرآن سے کوئی سروکار تھا اور نہ کعبہ کی حرمت کا پاس و لحاظ تھا۔ دونوں ہی انسانیت کے خون سے ہولی کھیل رہے تھے اسلام کا مذاق اڑا رہے تھے۔ یہ بہت اہم چیز ہی کہ ہر شخص غور کرے، نام سے دھوکہ نہ کھائے بلکہ نام لینے والے کے مقاصد اور اس کے کردار کی چھان بین کرے اور اس کے پیچھے کے منظر کو سامنے رکھے۔ نعروں سے فریب نہ کھائے ورنہ لوگ حسین حسین نعرہ لگا کر انسانیت کا خون کردیتے ہیں اور لوگ اس وقت سمجھتے ہیں جب وقت گذر چکا ہوتا ہے۔