قم سے امام خمینی(رح) کو گرفتار کر کے ترکی بھیج دیا گیا
۴ نومبر ۱۹۶۳ء کی صبح ایک بار پهر تہران سے بهیجے ہوئے مسلح کمانڈوز نے قم میں امام خمینی (رح) کے گھر کا محاصرہ کیا ۔
جماران خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق ۴ نومبر ۱۹۶۳ء کی صبح ایک بار پهر تہران سے بهیجے ہوئے مسلح کمانڈوز نے قم میں امام خمینی (رح) کے گھر کا محاصرہ کیا ۔ حیران کن بات یہ ہے کہ امام (رح) کوگذشتہ سال کی طرح اس بار بھی نمازشب کے وقت گرفتار کیا گیا امام خمینی (رح) کو گرفتار کرنے کے بعد سکیوریٹی فورسز نے آپ کو تہران کے مہر آباد ہوائی اڈے پر پہنچا دیا۔ جہاں پہلے سے ہی تیار ایک فوجی طیارے کے ذریعے سکیورٹی فورس اور فوج کی نگرانی میں آپ کو ( ترکی کے دارالحکومت ) آنقارہ لے جا یا گیا ۔ اس دن شام کے اخبارات میں ساواک نے ملکی سلامتی کے لئے خطرات پیدا کرنے کے الزام میں امام خمینی (رح) کی ملک بدری کی خبر شایع کی ۔ گهٹن کی فضا طاری ہونے کے باوجود ایک وسیع احتجاجی مہم شروع ہوئی جس میں تہران کے علاقہ بازار میں عوامی مظاہرے ، حوزہ ہائے علمیہ میں درس و تدریس کے سلسلے کو طویل مدت تک بند کیا گیا اور بین الاقوامی اداروں اور مراجع تقلید کے نام اجتماعی دستخطوں کے ساته خطوط کا ارسال کرنا شامل تها ۔
امام خمینی (رح) کی جلا وطنی کے اگلے دن آیت اللہ حاج آقا مصطفی خمینی کو بهی گرفتار کر کے جیل بهیج دیا گیا ، کچھ دنوں کے بعد ۳ جنوری ۱۹۶۵ ء کے دن ان کو بهی جلا وطن کر کے اپنے والد گرامی کے پاس ترکی بهیج دیا گیا ۔ امام خمینی (رح) کی ترکی جلاوطنی کا دوران بہت سخت اور درد ناک تها ، یہاں تک کہ آپ کو علماء کا لباس کا پہننے سے بھی منع کیا گیا تھا ترکی پہنچتے ہی امام کو انقارہ کے ہوٹل بلوار پیلس کی چوتهی منزل کے کمرہ نمبر ۵۱۴ میں رکها گیا اور دوسرے دن ان کی اقامتگاہ کو خفیہ رکهنے کیلئے انہیں اتاترک ایونیو پر واقع کسی جگہ منتقل کیا گیا ، اس کے چند دن بعد ۱۲ جنوری ۱۹۶۵ ء کو مزید گوشہ نشین کرکے ہر قسم کے روابط منقطع کرنے کے لئے آپ کو انقارہ کے مغرب میں ۴۶ کلو میٹر کے فاصلے پر واقع شہربورسا منتقل کر دیا گیا ، اس دروان امام خمینی (رح) پر ہر قسم کی سیاسی سرگرمی کی پابندی عائد کی گئی تھی آپ کی نگرانی براہ راست ایرانی حکومت کے کارندے اور ترک حکومت کا حفاظتی عملہ کر رہا تھا۔
امام خمینی (رح) ۱۱ ماہ تک ترکی میں رہے ، اس عرصے میں شاہی حکومت ایرن کے اندر موجود جہادی قوتوں کو غیر معمولی شدت کے ساتھ کچلنے میں کامیاب ہو گئی اور امام کی غیر موجودگی میں فورا امریکہ کی من پسند اصلاحات نافذ کی گئیں ، عوام اور علماء کے دباؤ کی وجہ سے حکو مت اس بات پر راضی ہو گئی کہ گاہے بگاہے امام خمینی (رح) کے حال احوال سے مطلع ہونے اور آ پ کی صحت و سلامتی کے بارے میں اطمینان حاصل کرنے کیلئے اپنے نمائندوں کو بھیج سکتے ہیں، اس عرصے میں امام خمینی (رح) اپنے رشتے داروں اور حوزہ علمیہ کے بعض علماء کے نام خطوط میں اشاروں ،کنایوں اور دعاؤں کی صورت میں جہادی عمل کو ثابت قدمی سے جاری رکهنے کے ساتھ ادعیہ اور فقہی کتب ارسال کرنے کی درخواست کرتے تهے ۔ ترکی میں جبری اقامت کے موقع سے فائدہ اٹهاتے ہوئے امام خمینی (رح) نے تحریر الوسیلہ کی پہلی جلد لکھنا شروع کی .
واضح رہے کہ یہ کتاب امام خمینی (رح) کے فقہی فتووں پر مشتمل ہے جس میں اس دور میں پہلی بار جہاد ، دفاع ، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر جیسے احکام اور طاق نسیان میں رکھے گئے روز مرہ مسائل کو دینی فرائض کے طور پر مطرح کیا گیا تھا یاد رہے کہ فقہ اور اصول فقہ میں امام خمینی (رح) نے آیۃ اللہ بروجردی کی وفات سے برسوں پہلے اپنے اجتہادی نظریات سپرد قلم کئے تهے.