اپنے شاگردوں کے ساتھ امام خمینی (رح) کے روابط کے نتیجے میں جو بات زیادہ تر آپ کی ذات میں محسوس کی جاتی تھی وہ آپ کی پاکیزہ روح، گہری نظر اور معاملات کی حقیقت کو درست کرنے کی صلاحیت تھی۔
امام کی شاگردی کے زمانے میں، آپ کے دروس سے لکھے گئے چند نکات، ایک دن میں نے آپ کے خدمت میں پیش کئے اس لئے کہ ان میں مجھے کچھ اشتباہات، دکھائی دے رہے تھے۔ آپ نے میری تحریر کو کچھ دن اپنے پاس رکھا، ایک دن وہ تحریر واپس کرنے سے پہلے، راستے میں اچانک آپ کی نظر مجھ پر پڑگئی، آپ وہیں پر ٹھہرگئے، اور خندہ پیشانی کے ساتھ مجھ سے فرمایا: آپ کی تحریر کو میں نے دیکھا ہے، بہت اچھی تھی۔ ایک اہم ترین خوبی، اس میں یہ تھی کہ آپ نے تنقید اور اشکالات کیے ہوئے تھے، اس کے بعد آپ نے میری اس قدر حوصلہ افزائی فرمائی کہ میں شرمندہ ہونے لگا۔ اور جب آپ نے وہ تحریر واپس کی تو اس وقت بھی آپ نے مجھے بہت سراہا۔ اس حوصلہ افزائی کا نتیجہ یہ نکلا کہ میں نے ہمیشہ آپ کے دروس کو لکھنا، اپنا معمول بنالیا، یہاں تک کہ آخر پر وہ ایک کتاب بن گئی اور الحمدللہ آج میں نے اسے ایک کتاب بیع کی شکل میں منتشر کروایا ہے۔
امام اپنی عمیق بصیرت کی بنا پر مفاد پرست، فرصت طلب طلاب کو آسانی سے پہچان لیتے تھے، لہذا ایسے طلاب جو کہ سوء ظن کے ساتھ آپ کے درس میں شرکت کرتے تھے ان کے ساتھ آپ کا رویہ بھی منفرد ہوتا تھا۔ اور اگر کوئی واقعا بات کو سمجھنے اور رفع جہالت کے لئے اشکال کرتا تو جب تک اس اشکال رفع نہیں ہوجاتا تھا، آپ اس کی رہنمائی فرماتے اور اسے اس مبہم مفہوم کی تشریح دیتے رہتے تھے یہاں تک کہ سائل قانع ہوجاتا، لیکن جو کوئی خودنمائی و غیرہ کی نیت سے اشکال کرتا تو آپ اس کو یہ کہہ کر ٹال دیتے کہ" یہاں صرف سننے کا مقام ہے" یا یہ کہ "تم صرف توجہ سے سنو" اور اس طرح کے جملات سے، اسے اس کی غلط نیت کی طرف متوجہ کرتے تھے۔
اسی بات کے ضمن میں، مجھے ایک واقعہ یاد آرہا ہے کہ ایک دن دوران تدریس، جب آپ نے کسی بزرگ کا فرمان نقل کیا تو ایک شخص نے یہ کہتے ہوئے آپ پر اشکال کیا کہ "آپ کی بات، اس بزرگ کے کلام کے مطابق نہیں ہے" امام نے فرمایا: کیا تو نے ان کی کتاب میں اس موضوع کا مطالعہ کیا ہے؟ اس نے کہا: جی ہاں! میں نے مطالعہ کیا ہے۔ امام نے فرمایا: پس "انا للہ و انا الیہ راجعون"۔ اس پر شاگردوں کا تبسم ، ہنسی میں تبدیل ہوگیا۔
*حجت الاسلام و المسلمین محمد حسن قدیری