مسلمانوں کے امور کا اہتمام

مسلمانوں کے امور کا اہتمام

جو شخص مومن کا دل خوش کرے اس نے حضرت رسولخدا (ص) کو شاد کیا ہے اور جو حضرت رسولخدا (ص) کو شاد کرے اس نے خدا کو شاد کیا ہے

مسلمانوں کے امور کا اہتمام اور لوگوں کی ضرورتوں کو پورا کرنا ایک بہترین صفت ہے کہ اسے انجام دینے کے لئے سارے لوگ پابندی کریں۔  پیغمبر اسلام (ص) نے فرمایا: "من اصبح و لم یهتم بامور مسلمین فلیس بمسلم" جو صبح کرے اور مسلمانوں کی حاجتوں کو پوری کرنے کی کوشش نہ کرے، وہ مسلمان نہیں ہے۔ جو شخص کسی مومن کو ذلیل کرے اور اس کی ضرورت کو معمولی اور ہلکا سمجھے اس نے خدا اور رسول کو رسوا کیا ہے۔ جو شخص کسی مسلمان کی حاجت پوری کرنے کے لئے قدم اٹھائے اور اس کی ضرورت پوری کرنے کی کوشش کرے اس کے لئے حج کا ثواب ہے۔

سارے خدا کے بندے ہیں اور خدا کے بندوں کے ساتھ نیکی اور احسان حق کی رضایت کا موجب ہوتا ہے۔¸مومن کے دل کو خوش کرنے کا بہت ثواب ہے لہذا مومنین، مسلمین اور خدا کے بندوں کو خوش کرنے کی کوشش کرنی چاہیئے؛ کیونکہ بندہ کو شاد کرنے کا مطلب اس کے مولی کو شاد کرنا ہے۔

آٹھویں امام حضرت علی بن موسی الرضا (ع) فرماتے ہیں: جو شخص کسی مومن کا دل خوش کرے گا خداوند عالم قیامت کے دن اس کا دل خوش کرے گا۔

حضرت امام صادق (ع) نے فرمایا: جو شخص مومن کا دل خوش کرے اس نے حضرت رسولخدا (ص) کو شاد کیا ہے اور جو حضرت رسولخدا (ص) کو شاد کرے اس نے خدا کو شاد کیا ہے۔ مسلمانوں اور خدا کے بندوں کو وحشت انگیز اور غمگین کرنے والی خبریں سنانے سے پرہیز کرنا چاہیئے۔

امر بالمعروف و نہی از منکر کرنا بہت ہی اہم امر ہے اور شریعت کو رونق بخشنے اور دینی شعائر کو قائم کرنے کا سبب ہوتا ہے۔ اس امر میں کوتاہی یا طمع کی وجہ سے ہوتی ہے یا نفس کی کمزوری کی وجہ سے۔ جس معاشرہ میں امر بالمعروف اور نہی از منکر نہ ہو، اس معاشرہ سے خیرات و برکات اٹھ جاتی ہیں اور برے اعمال کی برائی ختم ہوجاتی ہے۔ یعنی برائی برائی نہیں لگتی۔ ہر شخص اپنی اپنی طاقت کے بقدر صلح آمیز انداز میں حالات سازگار ہوں تو اپنے خانوادہ، اپنے عزیز و اقارب کو نیک کام کرنے کی تشویق اور برے اور ناپسندیدہ اعمال سے روکے۔

حضرت رسولخدا (ص) نے فرمایا: جب امر بالمعروف اور نہی از منکر کسی قوم کے درمیان تعطیل ہوجائے اور سہل انگاری کا نشانہ بن جائے تو اس قوم پر برے لوگ مسلط ہوجاتے ہیں اور نیک لوگوں کی دعائیں مستجاب نہیں ہوتیں۔

قرآن کریم میں آیات ہیں جس میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی تعلیم دی گئی ہے اور اس کی تاکید کی گئی ہے۔ "ولتکن منکم امة ...."(آل عمران، آیت 104) اور تم مسلمانوں میں سے (جو لوگ عالم و آگاہ اور زیادہ پرہیزگار ہیں) خلق خدا کو خیر و صلاح کی دعوت دیںاور لوگوں کو نیک کام کرنے اور برائی سے روکنے کا حکم دیں اور یہی لوگ کامیاب ہیں اور یہ بھی ذکر ہوا ہے: "کنتم خیر امة اخرجت للناس تامرون الناس بالمعروف و تنهون عن المنکر" تم (حقیقی مسلمان) بہترین امت ہو کہ اس پر قیام کیا کہ لوگوں کو نیک کام کرنے کا حکم دیتے اور برائی سے روکتے ہو۔ (آل عمران، آیت 110)

حضرت امام محمد باقر (ع) نے فرمایا: امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ایک ایسا اہم فریضہ ہے جس کے سایہ میں سارے فرائض کا احیاء ہوتا ہے۔ راستے پر امن اور محفوظ ہوجاتے ہیں۔ کمائی حلال ہوجاتی ہے، زمین آباد ہوتی ہے اور امر شریعت پائیدار ہوتا ہے۔

لہذا مسلمان کو اس فریضہ کی ادائیگی میں کوتا ہی نہیں کرنی چاہیئے اور اس سلسلہ میں اپنے اندر خوف و ہراس کو جگہ نہ دیں بلکہ اس کی دینی غیرت اور حمیت بیدار ہو اس کی ہیبت اور شان وشوکت منکرات کے خاتمہ کا باعث ہو اور معروف و نیکی کو رواج ملے اور امر حق سب کے کانوں تک پہونچے۔

ای میل کریں