jhoth

قرآن و حدیث کی رو سے جھوٹ بولنے کے بُرے نتائج و اثرات

جھوٹ بولنے کے بہت سے اسباب ہوسکتے ہیں ان میں سے ایک غربت کا خوف،حلقہ احباب کا ٹوٹنا،کسی منصب کا حصول،یا کسی مال کو حاصل کرنا ہوسکتا ہے

قرآن و حدیث کی رو سے جھوٹ بولنے کے بُرے نتائج و اثرات

جھوٹ بولنے کے بہت سے اسباب ہوسکتے ہیں ان میں سے ایک غربت کا خوف،حلقہ احباب کا ٹوٹنا،کسی منصب کا حصول،یا کسی مال کو حاصل کرنا ہوسکتا ہے۔

ولایت پورٹل: قارئین کرامجھوٹ بولنا بہت بُرا عیب اور گناہان کبیرہ میں سے ایک ہے کہ جو بہت سے فساد کا پیش خیمہ اور تمہید بنتا ہے لہذا جھوٹ کے بارے میں اسلام کا حکم اولیہ یہی ہے کہ جھوٹ بولنا حرام ہے۔

جھوٹ بولنا انسان کو دنیا و آخرت میں اللہ کی رحمت سے محروم کردیتا ہے اور لوگوں کی نظروں میں اس کا اعتبار ختم کردیتا ہے اور کسی بھی معاشرہ کو نفاق کے مرض میں مبتلاء کردیتا ہے یہ زبان کی آفت اور ایمان کے انہدام کا سبب بنتا ہے۔

جھوٹ بولنے کے بہت سے اسباب ہوسکتے ہیں ان میں سے ایک غربت کا خوف،حلقہ احباب کا ٹوٹنا،کسی منصب کا حصول،یا کسی مال کو حاصل کرنا ہوسکتا ہے۔

بہ الفاظ دیگر جھوٹ کبھی انسان اپنی زبان سے بولتا ہے اور کبھی اپنے کردار کے ذریعہ۔غرض اپنے مقصود تک پہونچنے کے لئے غیر مشروع طریقہ کا استعمال کرنا جھوٹ کا ایک مصداق ہے۔

آیات و روایات کے تناظر میں جھوٹ کی حقیقت

ہمارے سامنے جھوٹ کی بُرائی کے متعلق بہت سی ہلا دینے اور جھنجھوڑ دینے والی آیات و روایات ہیں کہ جو جھوٹوں کو کافروں اور منکرین حق کی صف میں لا کھڑا کردیتی ہیں چنانچہ قرآن مجید میں اللہ تعالٰی کا ارشاد ہوتا ہے:’’ إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ بِآياتِ اللَّهِ وَ أُولئِكَ هُمُ الْكاذِبُون‏‘‘۔( سوره نحل: 105) جھوٹ تو صرف وہی لوگ گھڑتے ہیں جو اللہ کی آیتوں پر ایمان نہیں رکھتے اور یہی لوگ جھوٹے ہیں۔

اگرچہ اس آیت کریمہ میں خدا و رسول کی نسبت جھوٹ گھڑنے کی بات ہوئی ہے لیکن آیت کے مزاج سے یہ تو سمجھا جاسکتا ہے کہ اسلام میں جھوٹ کی بالکل گنجائش نہیں ہے ۔

جھوٹ تمام گناہوں کا سرچشمہ

اسلامی روایات میں جھوٹ کو ’’گناہوں کی چابی‘‘ کہا گیا ہے اس کے مقابل صدق و سجائی کو نیکیوں کی طرف ہدایت اور جنت کی طرف رہنمائی کا ذریعہ بتایا گیا ہے چنانچہ مولی الموحدین(ع) ارشاد فرماتے ہیں: الصدق يهدى الى‏ البر، و البر يهدى الى الجنة‘۔(مشكاة الانوار طبرسى صفحه 157) سجائی و صداقت نیکی کی طرف انسان کو بلاتی ہے اور نیکی بہشت کی طرف انسان کو لے جاتی ہے۔

جھوٹ کی مذمت میں امام باقر علیہ السلام کا ارشاد گرامی ہے:’ ان اللَّه عز و جل جعل للشر اقفالا، و جعل مفاتيح تلك الاقفال الشراب، و الكذب شر من الشراب‘‘ ۔اللہ تعالٰی نے برائیوں اور شر کے لئے کچھ تالے قرار دیئے ہیں اور شراب خوری ان تمام برائیوں کا تالہ ہے۔(چونکہ انسان کی عقل کو خراب کر اس سے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کو چھین لیتیہے) اور جھوٹ بولنا شراب پینے سے بھی بدتر ہے۔(صول كافى جلد 2 صفحه 254)

اسی طرح امام حسن عسکری(ع) ارشاد فرماتے ہیں:’’ جعلت الخبائث كلها فى بيت و جعل مفتاحها الكذب‘‘۔(جامع السعادات جلد 2 صفحه 233) تمام کی تمام خیانتیں ایک گھر میں بند کر تالا لگا دیا گیا ہے اور ان سب کی چابی جھوٹ ہے۔

یعنی اگر انسان دیگر گناہ کرنے کے ساتھ سچ  بولنے کا عادی بھی ہو تو وہ کبھی اس بات پر تیار نہیں ہوگا کہ وہ اپنے عیب چھپانے کے لئے اور اپنے دیگر گناہوں کو مخفی کرنے کے لئے جھوٹ کا سہار لے لہذا آخر کار اسے فیصلہ کرنا ہی پڑے گا کہ جو کچھ ہوجائے وہ اب آئندہ گناہ نہیں کرے گا تاکہ اسے خوامخواہ کی صفائی دینا پڑے اور اس طرح وہ اپنی بُری عادتوں سے کنارہ کش ہوجاتا ہے۔

اتفاقاً اسی حقیقت کی طرف ایک حدیث میں اشارہ ہوا ہے چنانچہ ملتا ہے: ایک شخص رسول خدا(ص) کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا:یا رسول اللہ میں نماز تو پڑھتا ہوں ،اور خلاف عفت و پاکیزگی کام بھی کرتا ہوں اور ساتھ ہی جھوٹ بھی بولتا ہوں، اب یہ بتائیے کہ میں ان دونوں برائیوں میں سے پہلے کس کو ترک کروں؟

اللہ کے رسول(ص) نے فرمایا: جھوٹ کو پہلے چھوڑو چنانچہ اس شخص نے آپ کے سامنے اللہ سے جھوٹ نہ بولنے کا عہد کیا لہذا جیسے وہ آپ کی بارگاہ سے رخصت ہوکر چلا تو شیطان نے منافی عفت عمل کے انجام دینے کا وسوسہ اس کے دل میں ایجاد کیا لیکن وہ بلا فاصلہ اس فکر میں غرق ہوگیا کہ اگر میں کل رسول اللہ(ص) سے ملاقات کے لئے گیا اور آپ نے مجھ سے سوال کرلیا تو میں کیا کہوں گا اگر یہ کہا کہ میں نے یہ عمل انجام نہیں دیا ہے تو یہ تو جھوٹ ہوگا اور اگر سچ کہوں گا تو مجھے پر حد جاری ہوگی  اور اسی طرح اس نے اپنے دیگر غلط کاموں کے بارے میں اس طرز تفکر کو سامنے رکھتے ہوئے غور کرنا شروع کیا تو جھوٹ کے ساتھ ساتھ اس نے دیگر تمام گناہوں کو بھی ترک کردیا۔

ای میل کریں