بنی امیہ کا خاندان اسلام کو ایک سلطنت اور شاہی نظام میں تبدیل کرنا چاھتا تھا:امام خمینی(رح)
امام خمینی (رح) فرماتے ہیں کہ معاویہ اور یزید کی طرف سے اسلام کو سب سے بڑا خطرہ یہ تھا کہ یہ لوگ اسلام کو ایک سلطنت اور شاہی نظام میں تبدیل کرنا چاہتے تھے۔
کسی مکتب فکر کی تحریف اس مکتب فکر کے لئے سب سے بڑا خطرہ ہے کسی بھی مکتب اور مذہب میں بدترین تحریف یہ ہے کہ اس مکتب کے رہبران اور سیاستدان اس مکتب اور مذہب کے قوانین اور دستورات کے برخلاف عمل کریں لیکن دوسرے افراد کے سامنے اپنے گفتار و کردار کو اس مکتب کے قوانین، دستورات اور تعلیمات کے عین مطابق سمجھنے لگے۔ امام حسین علیہ السلام کے زمانے میں بھی اموی مشینری کی طرف سے اسلام کے لئے اس قسم کا خطرہ موجود تھا اگر اس دور میں امام حسین علیہ السلام قیام نہ کرتے تو اسلام کا صرف نام باقی رہ جاتا۔
امام خمینی(رح) اس سلسلے میں فرماتے ہیں، ظالم و جابر یزیدی حکومت کا ارادہ تھا کہ سرخ قلم سے اسلام کے نورانی چہرے پر لکیر کھینچے اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صدر اسلام کے مسلمانوں کی زحمتوں اور شہداء کے پاکیزہ خون کو رایگان اور ضائع کرے۔ ایک اور مقام پر امام خمینی (رح) فرماتے ہیں، بنی امیہ نے اسلام کو ایک طاغوتی نظام کے طور پر پیش کیا، یہاں تک کہ بانی اسلام کے چہرے کو بھی حقیقت کے برعکس پیش کیا۔ معاویہ اور اس کے ظالم بیٹے یزید نے خلیفہ رسول خدا کے عنوان سے اسلام کے ساتھ اس طرح سے سلوک کیا جس طرح چنگیز خان نے ایران کے ساتھ سلوک کیا اور اس دین کو جس کی بنیاد وحی پر تھی ایک شیطانی رژیم میں تبدیل کیا۔
ایک اور جگہ امام خمینی (رح) فرماتے ہیں، سید الشہداء امام حسین علیہ السلام جانتے تھے کہ معاویہ اور اس کا بیٹا اس عظیم مکتب کو تباہ کر رہے ہیں اور اسلام کے اصلی اور حقیقی چہرے کو مسخ کر کے پیش کر رہے ہیں۔ وہاں جماعتیں تھیں تو بھی لہو و لعب کی مجالس برپا ہوتی تھیں۔ خدا خواہی کا نعرہ لگاتے تھے لیکن خدا و الوہیت کے خلاف قیام کرتے تھے۔ ان کے اعمال اور ان کا رویہ شیطانی تھا لیکن ان کی فریاد خلیفہ رسول خدا کا تھا۔ معاویہ اور یزید کی طرف سے اسلام کو جو خطرہ تھا وہ یہ نہیں تھا کہ خلافت کو غضب کیا گیا بلکہ یہ بہت کم خطرہ تھا لیکن ان کی طرف سے اسلام کو جو شدید خطرہ تھا وہ یہ تھا کہ یہ لوگ اسلام کو ایک سلطنت اور شاہی نظام میں تبدیل کرنا چاہتے تھے۔ اسلام کی معنویت کو ایک طاغوت میں تبدیل کرنا چاہتے تھے اور یہ اسلام کے لئے سب سے بڑا خطرہ تھا اور اس خطرے کو امام حسین علیہ اسلام نے دفع کیا اور اگر وہ اس چیز میں کامیاب ہوتے تو اسلام کا ایک اور نقشہ ہوتا اور اسلام بھی دو ہزار پانچ سو سالہ شاہی رژیم و سلطنت کی طرح ہو جاتا۔اسی طرح امام خمینی(رح) ایک اور مقام پر فرماتے ہیں، سید الشہداء علیہ السلام نے جب دیکھا کہ اموی خاندان اسلامی خلافت کے نام پر مکتب اسلام کو آلودہ کر رہے ہیں اور ہر قسم کے ظلم و ستم کر رہے ہیں جبکہ دوسرے افراد کا تاثر یہ ہے کہ یہ خلیفہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں، اس لئے یہ کام انجام دے رہے ہیں۔ امام حسین علیہ السلام نے اپنا وظیفہ سمجھا کہ یزید کے خلاف قیام کریں اور اس راہ میں شہید ہو جائیں تاکہ معاویہ اور اس کے بیٹے یزید کے آثار کو ہمیشہ کے لئے دفن کر دیں۔
امام خمینی (رح) فرماتے ہیں کہ معاویہ اور اس کے بیٹے یزید کے دور حکومت میں مسئلہ یہ تھا کہ یہ لوگ اسلام کے حقیقی چہرے کو مسخ کر رہے تھے اور خلیفہ المسلمین اور خلیفۃ رسول اللہ کے عنوان سے ہر قسم کی جنایات انجام دیتے تھے، اس لئے بزرگان اسلام کی ذمہ داری بنتی تھیں کہ وہ ان کا مقابلہ کرتے ہوئے قیام کریں، دنیا پر ان کی خباثت برملا کریں اور اسلام کا اصل چہرہ دنیا کے سامنے پیش کریں کیونکہ بہت سے لاعلم اور غافل افراد اسی کو ہی اسلامی خلافت سمجھتے تھے امام خمینی کے ان کلمات میں آپ تحریف کے مسئلہ پر بہت زیادہ تاکید کرتے ہوئے اسے بہت ہی زیادہ خطرناک قرار دیتے ہیں اور اس سے مقابلہ کرنے کو قیام امام حسین علیہ السلام کے اہداف میں سے قرار دیتے ہیں۔ اس تحریف کا خطرہ یہ تھا کہ اسلام کے لبادے میں اسلامی تعلیمات کو جان بوجھ کر لگد مال کئے جاتے تھے اور یہ کام بھی ان افراد کے ہاتھوں جو اپنے آپ کو خلیفۃ المسلمین کہلاتے تھے۔ بہت ہی کم عرصے میں اسلام سرے سے صفحہ ہستی سے مٹ رہا تھا جبکہ نادان افراد ان کے اعمال و کردار کو اسلامی تعلیمات کے عین مطابق سمجھتے تھے۔ امام حسین علیہ السلام کو جب مروان نے کہا کہ مدینہ کے گورنر کی پیشنہاد پر عمل کرتے ہوئے یزید کی بیعت کرے تو آپ نے کلمہ استرجاع کی تلاوت کی اور فرمایا "و علی الاسلام، السلام، اذ قد بلیت الامة براع مثل یزید