حضرت امام خمینی(رح) کی عراق سے پیرس ہجرت
اسلام میں ہجرت اجتماعی و سیاسی پہلو ؤں میں بنیادی و اصلی و مؤثر مفاہیم میں سے ہے نیز سیاسی و خدائی تحریکوں میں بھی اس کا اہم کردار ہے جیسا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تاریخ ساز ہجرت اسی امر کو بیان کررہی ہے۔
اگرچہ ہجرت کا ظاہری پہلو ایک اعتبار سے دشمنوں کے ظلم و ستم کا بیان گرہے اور اس کا ظاہرگھر، بار،خاندان و اموال ترک کردینے میں پوشیدہ ہے اور بعض اوقات اس چیز کا امکان پایا جاتا ہے کہ ابتدا میں شاید احساس شکست یا کم از کم تحریک کا خاتمہ اور پیروکاروں میں ناامیدی کا خوف ایجاد ہو لیکن جیسا کہ تاریخی تجربیات سے معلوم ہوتا ہے کہ ہجرت عام طور پر محاذ آرائی میں شدت اورجلد کامیابی کے حصول کا سبب بنتی ہے۔
اسلامی انقلاب اور امام خمینی(رح)کی تحریک نے بھی دونوں ہجرتوں کو طے کیا ہے نجف اشرف میں امام خمینی(رح)کی ہجرت اگرچہ اجباری طور پر ان کی جلاوطنی کی صورت میں تھی لیکن جیسا کہ ہم نے مشاہدہ کیا کہ اس جلاوطنی کے نتیجہ میں امام (رح)کواپنی گہری و نامحسوس تحریک کے رشد و نمو کے لئے تاریخی موقع فراہم ہوا۔
دوسری ہجرت بھی اگرچہ وقت کی ایرانی و عراقی حکومتوں کی سازش اور عراق کی بعثی مشینری کے دباؤ کے نتیجہ میں انجام پائی لیکن پہلی بات تو یہ کہ نجف اشرف میں مزید سکونت پذیری میں امام خمینی(رح)سیاست میں مداخلت نہ لینے اور محاذ آرائی سے ہاتھ کھینچنے میں مکمل اختیار رکھتے تھے اور دوسرے یہ کہ انہیں دوسرے ملک کے انتخاب میں بھی تقریبا اختیار حاصل تھا اگرچہ عالمی اسکتبار کے خلاف بعض اسلامی ممالک کی خاموشی اور بعض کی ہمراہی کو مد نظر رکھتے ہوئے اس انتخاب کا دائرہ کافی محدودتھا۔ امام خمینی(رح)کا ارادہ یہ تھا کہ وہ پہلے کویت اور اس کے بعد شام کا رخ کریں لیکن انہیں کویتی حکومت کی جانب سے ممانعت کا سامنا کرنا پڑالہذا فوراً بعض دوستوں کی رائے کے مطابق انہوں نے پیرس ہجرت کی۔خود امام خمینی(رح)اس بارے میں فرماتے ہیں:
"۔۔۔ہمارا ارادہ بھی یہی تھا کہ ہم پہلے کویت اور اس کے بعد شام کا رخ کریں ، پیرس جانے کے بارے میں ہمارا کوئی ارادہ نہیں تھاشائد کچھ ایسے مسائل تھے جن میں ہمارے ارادہ کی کوئی مداخلت نہیں تھی"۔(صحیفۂ امام، ج۱۰، ص۱۹۶)
اہمیت کا حامل نکتہ یہ ہے کہ اس تاریخی ارادہ میں خدائی خفیہ الطاف کا کرداردوبارہ ظاہر ہوا اور امام خمینی(رح)کو جہاں جانا تھا وہیں انہیں پہونچایا گیا اور ہم سب نے انقلاب کی کامیابی میں اس ہجرت کے مؤثر اور نمایاں کردارکا مشاہدہ کیا۔
امام خمینی(رح)بھی اس امرپہ یقین رکھتے تھے" ہمارا پیرس جانے کا کوئی ارادہ نہیں تھا ، کچھ مسائل تھے جن میں ہمارے ارادہ کو کوئی مداخلت نہیں تھی،جو کچھ بھی تھا، اور اب تک ہے اور شروع سے ہی جو کچھ ہوا خدائی ارادہ سے ہوا۔ میں نے خود کوئی چیز، یا عمل انجام نہیں دیا اور اپنے لئے کسی چیز کا قائل نہیں ہوں اور حتی آپ لوگوں کے لئے بھی کسی چیز کا قائل نہیں ہوں جو کچھ بھی ہے خداہی جانب سے ہے بہت سے امور ایسے تھے جو ہمارے خیال میں بھی نہیں تھے کہ یہ کام ہونا چاہئے اور وہ ہوجاتا تھا اور ہم مشاہدہ کرتے کہ اس نتیجہ بہت اچھا رہتا تھا۔(صحیفۂ امام، ج۱۰، ص۱۹۶)۔
پیرس میں امام خمینی(رح)کے داخل ہوتے ہی فرانسی حکومت کے نمائندوں نے امام(رح)سے ملاقات میں ہر قسم کی سیاسی سرگرمی سے پرہیز کا مطالبہ کیا تو امام(رح)نے اس کی شدید مخالفت کی، اس کے نتیجہ میں فرانسی حکومت نے امام(رح)کو ملک سے نکالنے کا ارادہ کیا لیکن شاہی حکومت کے سیاسی نمائندوں نے اس کام کے نتیجہ پیش آنے والے خطرات سے آگاہ کیالہذا اس نے امام (رح)کی جلاوطنی سے ہاتھ کھینچ لیا۔ شاہی حکومت کا خیال تھا کہ اگر امام(رح)فرانس میں رہیں گے تو وہ مرکزِ محاذ آرائی سے دور اور دنیائے اسلام سے بھی دور رہیں گے جس کے نتیجہ میں وہ بہت جلد ذہنوں سے مٹ جائیں گے لیکن ہم نے مشاہدہ کیا کہ کیسے ان کی سازش و مکاری نے خود انہیں اپنی لپیٹ میں لے لیا اور انہوں نے اپنے ہی ہاتھوں سے اپنی ویرانی کے جلد مقدمات فراہم کئے۔
لہذا پیرس میں نوفل لوشاٹوی نامی جگہ امام(رح)کی تاریخ ساز ہجرت،پیغام ِ امام اور انقلاب کے عالمی ہونے کا سبب بنی ۔ نوفل لوشاٹو میں بڑی بڑی جانی و مانی شخصیات کی رفت و آمد اور میڈیا ، ایران اور پورے عالم میں ان کی چاہنے والوں تک امام(رح)کے پیغام پہونچنے میں آسانی کا سبب بنے۔ امام(رح)اور انقلاب کے سلسلہ میں عالمی حمایت میں مزید اضافہ ہوا اور ۴ مہینے امام(رح)کی سکونت کے بعدکامیابی کے ساتھ ان کے وطن لوٹنے کے لئے شرائط فراہم ہوگئے اور ایک نئی تاریخ ساز ہجرت تاریخ اسلام و جہان میں اوراقِ تاریخ میں قید ہوگئی۔