حضرت امام جعفر صادق (ع) کے فرزند اور شیعوں کے 7/ویں امام اور رسولخدا (ص) کے 9/ویں جانشین برحق حضرت امام موسی بن جعفر الصادق (ع) جو امام موسی کاظم (ع) کے نام سے مشہور ہیں، 20/ ذی الحجہ سن 128 ق مکہ اور مدینہ کے درمیان واقع ابواء نامی قریہ میں پیدا ہوئے۔
آپ کا سب سے اہم اور مشہور لقب "کاظم" ہے اور کاظم یعنی غصہ کو پینے والا۔ آپ کے دوسرے القاب عالم، صالح، صابر، امین اور باب الحوائج ہے۔ آپ کی اہم ترین کنیت عبد صالح اور ابوالحسن ہے۔
آپ کی تاریخ ولادت کے بارے میں مورخین کے درمان اختلاف ہے لیکن مجموعی روایات کی روشنی میں ذی الحجہ کے مہینہ سن 128 ق ہی ہے یہ اور بات ہے کہ کوئی 17/ ذی الحجہ اور کوئی 20 ذی الحجہ و ... کہتا ہے۔ چونکہ ذی الحجہ قمری سال کا آخری مہینہ ہے اور آپ کی ولادت اسی ماہ کے آخر میں ہوئی ہے۔ اسی وجہ سے سال کے بارے میں بھی غلط فہمی ہوئی ہے کیونکہ آخر میں ہوئی ہے۔
آپ کے والد گرامی ہدایت کے چراغ، انسانیت کے پیشوا اور فضیلت و شرافت کے امام ابو عبداللہ جعفر بن محمد (ع) ہیں۔ آپ کی والدہ حمیدہ ہیں جو "اندلس" یا یورپ کے رہنے والی تھیں۔ اس عظیم خاتون کا لقب "حمیدہ مصفاة" ہے۔ حمیدہ با فضیلت خواتین میں سے ایک فضل و شرف کی مالک خاتون تھیں، کیونکہ آپ نے رسالت کے اہم کاموں کی ہمت کی اور اس راہ میں اپنے شوہر نامدار، ہدایت و رسالت کے علمدار حضرت امام جعفر صادق (ع) کی بعض احادیث بھی روایت کرتی تھیں۔
حضرت امام موسی کاظم (ع) نے 21/ سال کی عمر میں مسلمانوں کی رہبری اور امامت و پیشوائی کی ذمہ داری لی اور شہادت تک 35/ سال تک آپ لوگوں کو ہدایت و رہبری کرتے رہے۔ آپ ہدایت کا چراغ، ضلالت و گمراہی کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں نور اور علم ہیں۔ آپ کا ایک لقب باب الحوائج ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی خدا سے کوئی حاجت اور آرزو رکھتا ہے تو امام موسی کاظم (ع) کو واسطہ قرار دے کر وہ اپنی مراد پاسکتا ہے۔ خداوند عالم نے آپ کو آپ کے آباؤ و اجداد کو ہر رجس و کثافت سے دور رکھا ہے اسی طرح آپ کی معصوم اولاد بھی طیب و طاہر اور گناہ و خطا سے معصوم ہے اور یہ سلسلہ امام زمانہ (عج) تک جاتا ہے۔
آپ علم و دانش، تواضع و فروتنی، خاکساری اور انکساری، زہد و پارسائی، تقوی و پرہیزگاری، کثرت سے صدقہ دینے، بے حساب سخاوت کرنے اور خیرو خیرات کرنے میں ضرب المثل اور زبان زد خاص و عام تھے۔ آپ اخلاق و کردار کی بلندیوں پر فائز تھے۔ آپ نے برے لوگوں اور غلط افکار کے مالک لوگوں کی اپنی بیکراں عفو و بخشش سے تربیت کی۔ راتوں کو انجان بن کر مدینہ کی گلیوں کا چکر لگاتے اور فقراء و مساکین کی مدد کرتے تھے۔ اپنے بیگ میں 200/ اور 300/ رکھتے اور مدینہ کے بے نوا اور محتاج لوگوں کے درمیان تقسیم کرتے تھے۔ اگر کسی کو ایک تھیلی مل جاتا تھا تو وہ بے نیاز ہوجاتا تھا۔ اس کے باوجود جس کمرہ میں نماز پڑھتے تھے اس میں ایک بوریا، قرآن اور تلوار کے کچھ نہیں تھا۔
ارشاد میں شیخ مفید کے بقول امام موسی کاظم (ع) کے 37/ اولاد تھی کہ ان میں سے 18/ بیٹے تھے۔ آٹھویں امام، علی بن موسی الرضا (ع) آپ کے افضل فرزند ہیں۔ آپ کے مشہور فرزندوں میں احمد بن موسی، محمد بن موسی اور ابراہیم بن موسی ہیں اور آپ کی ایک بیٹی حضرت فاطمہ معصومہ (س) ہیں جن کا مزار قم میں ہے اور یہ دنیا کے شیعوں کی زیارت گاہ ہے۔
امام خمینی (رح) فرماتے ہیں: ہمارے ائمہ (ع) شہید کئے گئے ہیں اس کی وجہ یہ تھی کہ آپ حضرات ظالم و جابر حکومت کے مخالف تھے۔ اگر ہمارے ائمہ (ع) خاموشی سے گھر میں بیٹھ کر لوگوں کو بنی امیہ اور بنی عباس کی طرف دعوت دیتے تو ان ہستیوں کو یہ ظالمین اپنے سروں پر بٹھاتے کیونکہ یہ لوگ محترم تھے۔ لیکن ان لوگوں نے دیکھا کہ ہر امام اس وقت لشکر کسی نہیں کرسکتا، حالات فراہم نہیں ہے، راہ ہموار نہیں ہے لیکن ان لوگوں کو زمین دوز طریقہ سے نابود کررہے هیں ۔
اس لئے اموی اور عباسی سلاطین نے پکڑ کر جیل میں ڈالتے ہیں۔ دس سال تک آپ ان کے قید خانہ میں تھے۔ ان لوگوں نے نماز و روزہ کے لئے امام موسی بن جعفر (ع) کو قید میں رکھا۔ کیا اس لئے کہ آپ نماز پڑھتے تھے، روزہ رکھتے تھے اور لوگوں کو ہارون رشید کی پیروی کی دعوت دیتے تھے؟ نہیں! ایسا نہیں تھا۔ بلکہ ان لوگوں نے دیکھا کہ یہ ہستیاں ان کی ظالم اور سفاک حکومت کے لئے خطرہ ہیں۔ ان کے اقتدار کے لئے خطرہ ہیں۔ اس لئے ان پاکیزہ ہستیوں کو ان لوگوں نے قید کیا، قتل کیا اور جلا وطن کیا۔ (صحیفہ امام، ج 4، ص 12)