اس بغاوت کا واقعہ یوں ہے کہ ڈاکٹر مصدق اردیبہشت سن 1330 ش کو صدر جمہوریہ کے عہدہ پر فائز ہوئے اور اس کے بعد والے سال میں شاہ انہیں وزیر اعظم بنانے پر تیار نہیں ہوا۔ اس کے بعد آیت اللہ کاشانی کے پیغام کے بعد 30/ تیر کو پورے تہران میں قیام اور بغاوت کی لہر دوڑ گئی اور اکثر بڑے شہروں میں احتجاج ہونے لگے۔ اس کے بعد شاہ کی افواج نے لوگوں کے احتجاج کا مقابلہ کرنے کے لئے لوگوں پر گولیاں برسانی شروع کردیں اور قتل عالم کا ماحول بن گیا۔ شاہ ملک سے باہر تھا۔ آخر کار سن 1332 ش میں امریکہ نے ایک بغاوت کراکے مصدق کی حکومت کو گرا دیا اور شاہ کو دوبارہ تخت نشین کردیا۔
مصدق کے ماننے والے شاہ کے اقدامات سے ناراض تھے۔ انہوں نے احتجاج اور تقریر کرکے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ عوامی پارٹی نے بھی گذشتہ دنوں میں بغاوت کے احتمال کی خبر دی تھی۔ اور تہران اور دیگر شہروں میں احتجاج کرانے کی تیاری کرنے لگی۔
برطانیہ اور امریکہ کے کارندوں نے مصدق یا حزب تودہ کے طرفداروں کی کردار کو مخدوش بنانے کے لئے افواہ پھیلانے، روحانیوں کو دھمکی، قتل اور شدت پسندانہ اقدامات کے ذریعہ ماحول کو بگاڑنے لگے؛ مذہبی مقدسات کی توہیں کرنے لگے۔ حکومت بلکہ مصدق کے وزیر اعظم ہونے کو باطل کرنے کی درخواست کرنے لگے۔ خلاصہ امریکہ اور برطانیہ نے لوگوں کو مصدق حکومت کے خلاف احتجاج کرنے، اسے باطل قرار دینے اور مذہبی مقدسات کی توہیں کرانے کے لئے رقم دی تھی۔ اور یہ کہ معاشرہ میں فتنہ و فساد پھیلایا جائے، ماحول خراب ہو اور لوگ بغاوت کریں تا کہ مصدق کی حکومت گر جائے اور ان کی کٹھ پتلی شاہ کی شکل میں مسند اقتدار پر جلوہ گر ہوجائے۔ نتیجہ اس ماحول سے لوگ متاثر ہوئے اور مصدق کے خلاف نعرہ لگانے لگے اور برطانیہ کافی ضمیر فروش افواج جنہوں نے اس بغاوت میں شرکت کا وعدہ کیا تھا، لوگوں کے ساتھ ہوگئی۔ اس کے لئے امریکہ اور برطانیہ نے کافی دولت خرچ کی تھی اور اوباش و اراذل مردوں اور محلے کی بدنام عورتوں کو بھاری رقم دے کر انہیں آمادہ کیا تھا۔
بدھ کی صبح مورخہ 28/ مرداد سن 1332 ش کی سڑکیں ان طاقتوں اور افواج کی شرکت کی گواہ ہیں کہ یہ لوگ "جاوید شاہ" کا نعرہ لگارہے تھے۔ عالم یہ تھا کہ ظہر تک سڑکوں پر قبضہ انہی اوباش اور غنڈے بدمعاشی لوگوں کا تھا جو مصدق کے طرفداروں پر حملہ کررہے تھے، پارٹیوں کے دفاتر، مصدق کے طرفداروں کے نشر و اشاعت کے آفس یا حزب تودہ کے آفس کو لوٹ لیا گیا اور آگ لگادی گئی۔ مصدق کا گھر بھی اس بغاوت میں شریک افواج کے توپ و ٹینک کا نشانہ بنا۔مصدق نے پڑوسی کے گھر میں پناہ لی۔ میر اشرفی نے مصدق کی معزولی اور زاہدی کے اس کی جگہ پر منصوب ہونے کا ریڈیو سے اعلان کیا۔ مصدق نے ان باغیوں کا مقابلہ نہ کرنے کا حکم دیا۔
خلاصہ بہت افراتفری کا ماحول رہا۔ جب مصدق دوبارہ برسر اقتدار آئے تو اختیارات بڑھانے کے خواہاں ہوئے۔ آیت اللہ کاشانی نے بھی اس کی حمایت کی جبکہ آپ کا نظریہ تھا کہ پارلیمنٹ حکومت کی پوری حمایت کر رہی ہے مزید اختیارات کی ضرورت نہیں ہے۔ اسی وقت سے آیت اللہ کاشانی اور مصدق کے درمیان اختلاف کا آغاز ہوگیا اور اس کی درخواست مصدق کی طرف سے ایک سال تک وسیع پیمانہ پر جاری رہی۔
اس تاریخ کو ایران میں عوام بحرانی حالات سے گذر رہی تھی، ہر شخص اپنی اپنی کامیابی اور اپنے اقتدار کے لئے دوڑ لگارہا تھا۔ کسی کو ملک اور ملت کی فکر نہیں تھی۔ علماء اور روحانیت کے خلاف سازشوں کا جال بچھایا جا رہا تھا۔ امریکہ اور برطانیہ کے کٹھ پتلی مزدور اس کی آرزوؤں کو پوری کرنے میں لگے ہوئے تھے۔ لوگ حقیقت حال سے بے خبر افواہ کے شکار تھے۔ وہ جانتے ہی نہیں تھے کہ اس میں اغیار، امریکہ اور برطانیہ کا ہاتھ ہے، صرف ان کے پلان کے مطابق افواہ کو سن رہے۔ لہذا ہر انسان کسی خبر کو سننے کے بعد اس کی اچھی طرح تحقیق کرے۔ اس پر غور و خوض کرے۔ اس واقعہ کے تمام ابعاد و جوانب پر نظر ڈالے پھر کوئی قدم اٹھائے ورنہ دشمن ہر آن کمین میں ہے اور اسے نقصان پہونچادے گا۔