آیت اللہ عباس رفعتی کہتے ہیں کہ آیت اللہ حسین راستی کاشانی واقعا خاص خصوصیات اور ممتاز و منفرد خصلتوں کے حامل انسان تھے۔ یہ امام خمینی (رح) کے بہت ہی مورد اطمینان اور قابل اعتماد شخص تھے اور نجف اشرف میں عالم غربت کے بہترین دوست اور ساتھی تھے اور یہ نجف اشرف میں امام (رح) کے صف اول کے دوست شمار ہوتے تھے۔ ان کا مرحوم امام (رح) سے لگاؤ اور تعلق ناقابل وصف ہے۔ یہ امام (رح) کو اپنا ولی جانتے تھے اور اپنے پورے وجود کے ساتھ ولایت فقیہ کا عقیدہ رکھتے تھے۔
مرحوم آیت اللہ حسین راستی حوزہ علمیہ نجف کے ایک بہترین مدرس اور قابل فخر شخصیت تھے۔ جب امام (رح) نجف میں جلاوطنی کئے گئے تو انہوں نی اپنا درس تعطیل کردیا اور امام (رح) کی موقعیت کو مضبوط بنانے اور نظریہ ولایت فقیہ کو جلوہ دینے اور امام (رح) کو غربت کے احساس سے بچانے کے لئے اپنے شاگردوں کے ساتھ آپ کے درس میں شرکت کی۔ یہ تحریک کافی قربانی چاہتی ہے اور آسانی کے ساتھ یہ ہونے والی نہیں ہے۔
یہ بہت بڑی بات ہے کہ حوزہ علمیہ نجف کا ایک مانا جانا استاد اپنے درس و بحث کو تعطیل کرکے آپ کے حلقہ درس میں جائے اور اپنے سارے عناوین کو نظر انداز کرے اور اپنے شاگردوں کے ساتھ شرکت کرے بہت بڑا حوصلہ اور عزم چاہتے۔ یہ ان کا بڑکپن اور بزرگی اور بلند نفسی ہے۔ آپ احساس کرتے تھے کہ امام (رح) کی تقویت اپنی موقعیت اور پوزیشن کی تقویت سے اہم ہے۔ یہ آیت اللہ راستی کی ایک خصوصیت ہے۔
دوسری خصوصیت یہ ہے کہ آپ حوزہ علمیہ نجف میں معلم اخلاق کے عنوان سے متعارف ہونے پر راضی نہیں تھے۔ یہ خصوصیت در حقیقت راستی مرحوم کے تقوی کی بلندی اور غایت درجہ تواضع اور انکساری پر دلالت کرتی ہے۔
آپ کی ایک دوسری خصوصیت یہ ہے کہ آپ کی علمی نگاہ بہت وسیع تھی۔ آپ حوزہ علمیہ میں سطح خارج کے استاد تھے اور ہمیشہ کہا کرتے تھے کہ ایک طالب علم کو جامع ہونا چاہیئے اور تمام اسلامی مسائل اور علوم میں شناخت رکھتا ہو۔ اس کے باوجود حوزہ علمیہ کے اصلی علوم کہ جو اصول و فقہ ہے میں کافی تحقیق اور جستجو کرے۔
مرحوم کی ایک دوسری خصوصیت ظاہری جمال کے ساتھ ساتھ آپ مسکرانا۔ آپ کے چہرے پر ہمیشہ مسکراہٹ اور تبسم نظر آتا تھا۔ نقاہت کے دور میں کہ جب بیماری کی وجہ سے ویلچیئر پر رہتے تھے تو آپ کا چهره بشاش اور مسکراہٹ رہتا تھا اور ہمیشہ خدا کا شکر ادا کرتے رہتے تھے۔ یہ واقعا اخلاق کا مجسمہ تھے۔ جیسا کہ روایت میں ہے کہ مومن کا غم و اندوہ دل میں ہو اور چہرہ سے دوسرے کے لئے سرور و شادی کا اظہار ہو رہا ہو۔
آپ کا علمی مقام بہت بلند تھا۔ آپ نجف میں درس خارج کے ساتاد تھے لیکن جب قم آئے تو انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعد فورا بعد مرحوم میرزائے قمی کی کتاب قوانین کی تدریس شروع کردی۔ اس زمانہ میں کوئی قوانین نہیں پڑھتا تھا چونکہ وہ حوزہ کی درسی کتابوں میں شمار نہیں ہوتی تھی۔ مرحوم میرزائے قمی کی قوانین الاصول، اصول فقہ کے موضوع پر ایک اہم اثر ہے۔