ذی الحجہ کی پہلی تاریخ بہت ہی مبارک اور مسعود دن ہے۔ اس دن کے چند اعمال ذکر ہوئے ہیں۔ اس دن کے روزہ کا ثواب 80/ ماہ کے روزہ کے برابر ہے؛ حضرت فاطمہ (س) کی نماز پڑھنا۔
جان لو کہ اس دن حضرت ابراہیم خلیل اللہ کی پیدائش ہوئی ہے اور روایت کے مطابق اس دن حضرت فاطمہ (س) اور حضرت علی (ع) سے عقد ہواہے۔
اسی دن سن 9/ھ ق کو رسولخدا (ص) نے ابوبکر کو مکہ کی طرف بھیجا تا کہ سورہ برائت کے اوائل کی آیات کفار کے سامنے تلاوت کریں۔ ان کے جانے کے بعد جبرئیل امین (ع) نازل ہوئے اور فرمایا کہ یہ کام یا خود آپ کیجئے یا اس سے کرائیے جو آپ سے ہو؛ کے ذریعہ انجام پائے اور ایک دوسری روایت کے مطابق علی (ع) آپ کی جانب سے (اس کی) تبلیغ کریں۔
پھر رسولخدا (ص) نے اپنی جانب سے امیرالمومنین حضرت علی (ع) کا انتخاب کیا جو آپ کی جان تھے اور ان سے فرمایا کہ جلدی جاؤ اور ابوبکر سے آیات برائت لیکر حج کے موسم میں خود ان آیتوں کی تلاوت کرو اور ان کو بھی ابلاغ کرو کہ کوئی بھی خانہ خدا میں داخل نہ ہو مگر یہ کہ وہ مومن ہو اور نہ کوئی برہنہ خانہ کعبہ کا طواف کرے اور ایسا نہ سمجھے کہ چونکہ برہنہ ہے لہذا مادر زاد بچے کی طرح عیوب اور برائیوں سے پاک ہوگا۔ دوسری بات یہ کہ اس سال کے بعد کسی کو حج کرنے کی اجازت نہیں ہے، جس کافر نے بھی خدا اور رسول سے عہد کیا ہے اس کی پابندی کرلے۔ یہاں تک کہ وہ مدت تمام ہوجائے اور اگر اس نے کوئی عہد نہیں کیا ہے تو چار ماہ تک اسے مہلت ہے یعنی 10/ ربیع الاول تک اور اس کے بعد اگر مسلمان نہ ہوا تو اس کی جان و مال حلال ہے۔ اور فرمایا: ابوبکر کو اپنے امر میں مختار بنادو اگر تمہارے ساتھ ساتھ خدمت کرنے پر تیار ہوں تو ٹھیک ورنہ مدینہ واپس بھیج دو۔
پھر حضرت امیر المومنین (ع) کوناقہ غضا دیا اور وہ اس پر بیٹھے اور جابر بن عبداللہ کے ساتھ روانہ ہوئے اور دوسرے دن ابوبکر کے پاس پہونچ گئے اور ان سے آیات برائت لے لی اور انہیں ساتھ رہنے اور واپس جانے کا اختیار دے دیا۔
ابوبکر مدینہ واپس آگئے اور رسولخدا (ص) سے کہا آپ نے مجھے ایک ایسا کام کا اہل اور لائق جانا جس کی طرف سب نگاہیں اٹھ گئیں اور ابھی نصف راستہ طے کیا تھا کہ آپ نے مجھ سے وہ کام لے لیا۔ پیغمبر (ص) نے فرمایا: میں نے تمہیں معزول نہیں کیاہے بلکہ خدا نے تمہیں معزول کیا ہے۔
دوسری طرف علی مرتضی (ع) نے آیات لیکر نشیب و فراز سے گذرتے ہوئے مکہ پہونچ گئے اور اعمال حج بجا لائے اور ایام تشریق یعنی 13/ 14/ 15/ ذی الحجہ کو کفار و مشرکین کے مجمع میں آیات الہی اور فرمان رسولخدا (ص) تین دن صبح و شام تبلیغ کی۔ پھر یہ ماموریت انجام دے کر مکہ آگئے۔
جب مدینہ سے علی (ع) مکہ کے لئے روانہ ہوئے تو حضرت علی (ع) کے بارے میں وحی منقطع ہوگئی اور رسولخدا (ص) پریشان ہوئے۔ اصحاب کے درمیان اس غم و اندوہ کی بات ہورہی تھی اور ہر ایک اپنا اپنا قیاس لگادیا تھا کہ ابوذر نے کہا: یہ غم و اندوہ علی (ع) کے فراق کی وجہ سے ہے۔ اس پر علی (ع) کی خبر لینے کے لئے ابوذر نکلے، راستہ میں ملاقات ہوئی، خوش ہوئے اور کہا کہ آپ آہستہ آہستہ آئیے تا کہ میں پہلے اپ کی سلامتی کی رسولخدا (ص) کو خبر دے دوں۔ حضرت علی (ع) نے فرمایا: ٹھیک ہے۔ ابوذر تیزی سے رسولخدا (ص) کے پاس آئے اور آپ (ص) کو حضرت علی (ع) کے آنے کی خوشخبری سنائی۔ رسولخدا (ص) اصحاب کے ساتھ سوار ہوکر علی (ع) کے استقبال کے لئے روانہ ہوگئے۔