خوف خدا میں کمی کی وجہ کی تین وجوہات ہیں:
1۔ خداوند متعال کی عظمت و جلالت سے بے خبری، روزجزا (قیامت کا دن) کے حساب و کتاب اور عذاب سے جہالت اور یقین و اعتقاد میں کمزوری اور سستی۔
2۔ روز قیامت کے حساب و کتاب سے بے خبری اور اس خطرناک دن کے عذاب اور ہولناک مسائل سے بے توجہی۔
3۔ خداوند عالم کی رحمت کاملہ سے اطمینان اور خاطر جمع ہونا یا پھر اپنی طاعات سے مغرور ہونا۔
ان وجوہات کے علاج کے لئے خدااور قیامت کا دن پر یقین اور ایمان حاصل کرنے کی کوشش ہوسکتی ہے۔ جب انسان کو ان کا یقین ہوگا تو وہ دنیا میں مصائب و آلام پر صبر کرے گا اور جب صبر کی قوت آجاتی ہے تو مجاہدت، ذکر الہی اور طاعت و بندگی کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ خداوند عالم سے اس کا لگاو اور اس کی معرفت اسے خدا کسے مقدرات پر راضی رہنے کے لئے ابھارتا ہے۔ اس طرح کا بندہ ہمیشہ عذاب الہی کو یاد کرے اور موت کو اپنی نظروں کے سامنے تصور کرے اور اللہ کا خوف رکھنے والوں اور اولیائے الہی کے حالات کے بارے میں غور و فکر کرے۔
حضرت داوود (ع)، حضرت یحیی (ع)، پیغمبر اکرم (ص)، حضرت علی (ع)، حضرت زین العابدین سید سجاد (ع) اور ہمارے تمام پیشوا مسلسل حق تعالی سے مناجات، دعا اور راز و نیاز کیا کرتے تھے اور خوف خدا اور خشیت الہی کے مارے گریہ کرتے رہتے تھے اور کبھی بیہوش بھی ہوجاتے تھے۔ یہ عظیم ہستیاں معصوم ہونے کے باوجود اس طرح تحقیق اور اب ہم گنہگار اور گناہوں اور برائیوں سے آلودہ ہیں کیسا ہے؟ اپنے مستقبل کے حالات سے کمزور انسان بالکل ہی بے خبر ہے۔ اسے معلوم نہیں کہ اس کے اعمال حق کے ترازو میں کیا قیمت رکھتے ہیں؟اس بنا بر اپنی آئندہ کی سرنوشت پر مغرور ہونا حقیقی دینداروں اور خدا کی تلاش کرنے والوں کا کام نہیں ہے، بلکہ وہ خوف خدا سے گریہ کرتے ہوئے اس سے مدد مانگتے۔ کبھی خدا کے بندے اپنی زندگی کے آخری لمحوں بلکہ سکرات موت اور بیہوشی کے وقت حسن عاقبت یا برے انجام کے خاتمہ اور عاقبت بخیر نہ ہونے سے دوچار ہوتے ہیں۔ اپنے گذشتہ برے اعمال پر سچے دل سے توبہ و انابت، خدا سے رو رو کر معافی مانگنا ممکن ہی کہ بندہ کو حسن عاقبت کا مالک بنادے۔
جب کوئی انسان زندگی کے آغاز سے ہی اپنی نفسانی خواہشات اور شہوتوں کا مطیع اور اسیر ہوتا ہے اور اس کا سارا ہم و غم مکر و خیال شہوت آمیز میدانوں میں ہوتا ہے یا مال و منال جمع کرنے میں لگا ہوتا ہے تو وہ مرتے وقت بھی خود کو ان ناپاک اور ہوس آمیز افکار و خیالات سے الگ نهیں کرسکتا۔
اس کے برعکس وہ لوگ جنہوں نے اپنی زندگی کے آغاز سے ہی اپنی گردن میں خدا کی بندگی اور اطاعت کا طوق ڈال رکھا ہے اور خدا کے سوا کسی اور کی فکر ہی نہیں کرتے وہ اپنی عمر کے آخری لحظے میں بھی اس عاشق کی طرح ہوتے ہیں جو اپنے محبوب کی طرف جارہا ہو اور اس کے لب پر اپنے معشوق کے دیدار کی مسکراہٹ ہوتی ہے۔
امام خمینی (رح) فرماتے ہیں:
خوف ایک عرفانی مقام اور انسان کے خدا کی طرف حرکت کرنے کا سبب ہے۔ جب انسان خود کو رحمت خداوندی سے دور کرے گا اور اس کے اندر امید کے چراغ کا نور خاموش ہوجائے گا تو اس کے اندر قنوط و مایوسی گھر کر جائے گی۔ خداوند عالم ہم سب کو خوف و امید کے ساتھ دنیا سے اٹھائی اور عاقبت بخیر فرمائے۔