علماء کا دھرنے کا سلسلہ جاری رہا اور اس کے جاری ہونے کی بنا پر پاکروان نے اعلان کیا کہ میں اعلی حضرت کی طرف سے علماء سے ملاقات کرنے پر مامور ہوں اور ان کے مطالبات کو شاہ تک پہونچاؤں۔ مرحوم آیت اللہ آقا نجفی نقل کرتے تھے کہ اس جلسہ میں مراجع کی طرف سے آیت اللہ میلانی سخنور کے عنوان سے منتخب ہوئے۔ جب پاکروان آیا تو سارے مراجع موجود تھے۔ رئیس ساواک نے کہا: میں آیا ہوں تا کہ آپ حضرات کے مطالبات کا جائزہ لوں کہ وہ کیا ہیں؟ مرحوم آقا میلانی نے فرمایا: ہمارا مطالبہ عوام کی عوام پر حکومت ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ عوام خود ہی اپنی تقدیر کا فیصلہ کریں اور کسی ایک فرد کی حاکمیت کے ماتحت نہ ہوں۔ اسی اثنا میں آقای خوانساری جو میرے پاس بیٹھے ہوئے تھے نے مڑ کر آہستہ سے مجھ سے کہا: یہ کیا کہتا ہے؛ ان مطالب کو ذکر کرنے کی بات نہیں ہوئی تھی اور پاکروان کو اس طرح کی باتوں کی امید نہیں تھی۔ اس نے حیرت سے کہا: حضرات میں آپ کے مطالبات کس طرح شاہ کے پاس پہونچاؤں؟ کیا آپ لوگوں کا مطالبہ آقا خمینی کی آزادی نہیں تھا؟ آقا میلانی نے کہا: ہاں، کہیں امام کی بلا قید و شرط آزادی ہمارا مطالبہ ہے۔ ہماری اصلی بات عوام کی حکومت میں مداخلت اور ملک کے ادارہ کرنے میں عوام کی رای کا دخل ہونا ہے۔ شاید مرحوم آقا میلانی کی باتوں کا اثر تھا کہ حکومت نے امام کو قیطریہ میں ایک گھر میں لاکر نظر بند کردیا تا کہ لوگ آزادی کے ساتھ ان سے ملاقات کرسکیں۔ کیونکہ حکومت کو اندازہ ہوگیا تھا کہ ان کو قید میں رکھنا امام کی آزادی کا مطالبہ شاہ کے جانے اور حکومت کی تبدلی تک جائے گا۔ جب اعلان ہوا کہ قیطریہ میں لوگوں کو امام (رح) سے ملاقات کی اجازت دے دی گئی ہے، ہم لوگوں نے تصور کیا کہ اب یہ آزاد ہوگئے ہیں تو ہم لوگ دوسرے دن ان سے ملاقات کرلیں گے لیکن جب دو دن بعد قیطریہ پہونچے تو مامورین لوگوں کے ازدہام کی وجہ سے کسی کو امام (رح) کی ملاقات کرنے نہیں دیتے۔