عالمی یوم قدس کے مظاہروں میں کیوں شرکت کروں؟
بانی انقلاب اسلامی حضرت امام خمینی (رح) نے جدت پسندی کے ساتھ ماہ رمضان المبارک کے آخری جمعہ یعنی جمعۃ الوداع کو عالمی یوم قدس قرار دے کر دنیا والوں کی توجہ مسئلۂ فلسطین کی طرف مرکوز کی اور تاکید فرمائی کہ فلسطینیوں کے اہداف کے پیش نظر مسئلۂ فلسطین عالم اسلام کا اولین اور سب سے بڑا مسئلہ ہے اور صیہونی حکومت عالم عرب اور اسلامی امت کی سب سے بڑی دشمن ہے۔
قدس اور مسئلۂ فلسطین کی طرف امام خمینی (رح) کی توجہ نے قدس شریف اور فلسطینیوں کے اہداف کو فراموش کرنے کی عرب، امریکی اور صیہونی سازش کو نقش بر آب کردیا اور آج امام خمینی (رح) کی دور اندیشی کی وجہ سے تحریک انتفاضہ نے ساز باز کے عمل پر غلبہ حاصل کرلیا ہے۔ انتفاضہ کے قالب میں وجود میں آنے والی فلسطینیوں کی استقامت نے سرزمین فلسطین میں طاقت کے توازن کو بدل کر رکھ دیا ہے اور غاصب اسرائیلی حکومت کے ساتھ سازباز کی پالیسی کو ناکام بنادیا ہے۔ آج فلسطینی نوجوان پہلی تحریک انتفاضہ یعنی 1978ع کی تحریک انتفاضۂ سنگ اور تحریک انتفاضۂ دوم یعنی سنہ 2000ع کی انتفاضۂ الاقصی کے تجربات سے استفادہ کرتے ہوئے تحریک انتفاضۂ سوم یعنی انتفاضۂ قدس جاری رکھے ہوئے ہیں اور اندرونی اور عرب ممالک کی طرف سے مشکلات کھڑی کئے جانے کے باوجود بدستور میدان عمل میں ڈٹے ہوئے ہیں۔
یوم قدس کی اہمیت عالم اسلام کے لئے تو کیا ہے لیکن درد مندان ملت کے لئے بہت زیادہ ہے جن کے سینوں میں مسلمانوں کا، قبلہ اول کا اور فلسطینیوں کا درد بھرا ہوا ہے۔ سارے مسلمانوں کو آپ اس میں شامل نہیں کر سکتے بلکہ کچھ لوگ تو ہیں جو ان کی جڑیں کاٹ رہے ہیں۔ فلسطینیوں پر ظلم کر رہے ہیں۔ لیکن ہر درد مند جو فلسطین کے لئے جان دیتا ہے اس کے لئے یہ دن بہت اہم ہے۔ ایک دن مخصوص کیا گیا تھا تاکہ ہم اس دن بیت المقدس کو یاد کریں۔ جس طرح سے گزشتہ 70 برسوں سے ان پر جو مظالم ہو رہے ہیں ان کے خلاف ہم مظاہرہ کریں اور جلوسوں میں شرکت کریں۔ یہ دن داعش اور نصرہ فرنٹ کا نہیں جو ظالموں کی مدد کر رہے ہیں، یہ ان کا دن ہے جن کے دل فلسطینیوں کے لئے دھڑکتے ہیں۔ یوم قدس کی اہمیت کو اسرائیلی بھی خوب سمجھتے ہیں کیونکہ جب تک امام خمینی (رح) کی جانب سے یوم قدس منانے کی کال نہيں دی گئی تھی ، تب تک کسی کو پتا نہیں تھا کہ فلسطین میں کیا ہو رہا ہے، سب یہی سمجھتے تھے کہ اسرائیل اور عربوں میں جنگ ہو رہی کسی کو یہ بھی پتا نہیں تھا کہ ہمارے قبلہ اول پر غاصبانہ قبضہ کر لیا گیا ہے۔ اب ماشاء اللہ دنیا کے 150 ممالک کے عوام نماز جمعہ کے بعد لوگ فلسطینیوں کی حمایت اور قبلہ اول کی بازیابی کے لئے نعرے لگاتے ہیں۔ پہلے یہ صرف ایران میں منایا جاتا ہے اور اب تقریبا پوری دنیا میں منایا جاتا ہے۔ اسرائیل کی کوشش ہوتی ہے کہ یوم قدس کی ریلیاں نہ نکلے، یہاں تک کہ اس نے پاکستان میں اپنے ایجنٹوں کے ذریعے یوم قدس میں شریک لوگوں پر حملہ تک کروا دیا۔ یہ کوشش کی جا رہی ہے کہ جیسے یہ ایران کا معاملہ ہو، بلکہ یہ ایران کا نہیں بلکہ فرزندان توحید اور قبلہ اول کا معاملہ ہے۔
مغربی ایشیا کے موجودہ حالات، خاص طور سے دہشت گردی کا سنگین چیلنج اور خطے کے ممالک کو مختلف بحرانوں میں الجھانا امریکہ اور صیہونی حکومت کی سربراہی میں تسلط پسند نظام کی منصوبہ بند سازش ہے تاکہ مسئلۂ بیت المقدس اور فلسطینی اہداف عالم اسلام کی اولین ترجیح کی حیثیت سے پیش نظر نہ رہیں۔ اس سازش کا اصل ہدف عالم اسلام کو اندرونی مسائل میں الجھائے رکھنا ہے تاکہ عالم اسلام کے سب سے بڑے دشمن کی حیثیت سے صیہونی حکومت کی طرف توجہ کم سے کم رہے بلکہ دوست اور دشمن میں بھی فرق نہ رہے۔ آج سعودی عرب سمیت بعض عرب ممالک امریکہ کے ساتھ مل کر اسرائیل کے ساتھ ساز باز کے عمل میں ایران کو، جو مظلوم ملت فلسطین اور امت اسلامیہ کا سچا دوست اور خیر خواہ رہا ہے، دشمن کے طور پر اور ظالم اور بچوں کی قاتل صیہونی حکومت کو ، بزعم خود، دوست بنا کر پیش کرنے کی بھرپور کوشش کر رہے ہیں۔ امریکا نے بھی بعض عرب ممالک کی خاموشی کو دیکھتے ہوے اپنے سفارتخانے کو قدس میں منتقل کرنے کی سازش کی ہے اسی منصوبہ بند سازش کے پیش نظر اس سال عالمی یوم قدس خاص اور بہت اہمیت کا حامل ہے۔