آپ کا نام: حسن؛ والد کا نام: علی؛ والدہ کانام: فاطمہ؛ دادا: ابوطالب؛ نانا : محمد مصطفی؛ نانی: خدیجہ بنت خویلد، دادی فاطمہ بنت اسد
رمضان المبارک کی 15/ ویں تاریخ کو خانہ عصمت و فضیلت میں آفتاب امامت شیعوں کے دوسرے امام اور چوتھے معصوم سبط اکبر حضرت امام حسن مجتبی (ع) کی ولادت با سعادت کی تاریخ ہے۔ یعنی 15/ رمضان سن 2 ھ ق اور بعض کے بقول سن 3 ھ ق کو اس ماہ انور اور خورشید درخشاں نے اپنے وجود ذی جود سے کائنات آدم و عالم کو روشن و منور فرمایا اور عالم ہستی کا ہر ذرہ خوشیوں سے جھوم اٹھا اور صاحب زبان اور بے زبان ہر مخلوق نے دل کھول کر خوشی منائی اور محسن انسانیت اور اسلام پیغمبر اکرم (ص) اور محافظ اسلام علی (ع) اور زہراء (س) کو مبارکباد دی۔
جب اس پاک و پاکیزہ نور کی آمد کی خوشخبر پیغمبر (ص) کو دی گئی تو آپ کا دل خوشی سے باغ باغ ہوگیا اور آپ کے وجود مبارک سے خوشی اور مسرت پھوٹنے لگی۔ پھر آپ مشتاقانہ انداز میں تیزی کے ساتھ اپنی پارہ جگر، نور نظر، محبودہ کردگار بیٹی سیدہ عالم حضرت فاطمہ زہراء (س) کے گھر تشریف لائے اور فرمایا: "اے اسماء میرِ بیٹے کو مجھے دو ۔اسماء نے نورانی پیکر خورشید درخشاں، مہر تاباں اور محسن عالم امکاں نوزاد کو حضرت رسولخدا (ص) کی آغوش میں دیا۔ رسولخدا (ص) نے بچہ کو اپنی آغوش مبارک میں لے کر داہنے کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت کہی۔
بچہ کے کان میں سب سے پهلی آواز جو پڑی وہ آپ کے جد سید الانبیاء، خاتم النبیین حضرت محمد مصطفی (ص) کی آواز تھی اور اسی صدائے حق پرست سے آپ کا کان آشنا ہوا تھا، توحید اور یکتا پرستی کی آواز، تکبیر و تہلیل کی آواز، پیغمبر اکرم (ص) کی نبوت کی تصدیق کی آواز۔ خداوند عالم اس بہترین سنت پر عمل کرنے کی آپ کی امت اور امام حسن مجتبی (ع) کی شیعوں کو توفیق عطا کرے کہ وہ بھی جب ان کے گھر کوئی بچہ پیدا ہو تو یہی سیرت اپنائیں اور اسی سنت پر گامزن ہوں۔
پھر پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا: اے علی! کیا تم نے اس پیارے بچہ کا نام رکھ دیا ہے؟ آپ (ع) نے جواب دیا: اے اللہ کے رسول ہم آپ پر سبقت نہیں کرسکتے۔ ابھی زیادہ دیر نہیں ہوئی تھی کہ بشیر وحی جبریل امین نازل ہوئے اور خدا کا پیغام پیغمبر (ص) تک پہونچایا۔ اور یہ تھا کہ خدا نے فرمایا: اس بچہ کا "حسن" نام رکھو۔ رسولخدا (ص) نے خود امام حسن (ع) کے لئے عقیقہ کیا، بسم کہی اور اور دعا کی۔ کیونکہ جبرئیل یہ پیغام لائے تھے کہ اس بچہ کا نام اور کنیت رکھو اور اس کا سر مونڈ کر ان کا عقیقہ کریں اور ان کے کان چھیدیں۔ روایت ہے کہ امام حسن مجتبی (ع) سر سے سینہ تک اپنے جد رسولخدا (ص) سے مشابہ تھے۔ (وقائع الایام، شیخ عباس قمی، ص 58)
روایت ہے کہ جب حضرت علی (ع) نے امام حسن (ع) کے نام کے بارے میں رسولخدا (ص) سے کہا کہ میں آپ پر سبقت نہیں کرسکتا تو رسولخدا (ص) نے بھی فرمایا کہ میں خدا پر سبقت نہیں کرسکتا۔ اس وقت خداوند عالم نے حضرت جبرئیل سے فرمایا کہ محمد کے یہاں بچہ پیدا ہوا ہے لہذا ان کی خدمت میں جاکر میرا سلام اور مبارکباد پیش کرو اور کہو: یقینا علی تمارے نزدیک موسی کی نسبت ہارون کے مانند ہیں۔ لہذا اس نو مولود کا نام ہارون کےبیٹے کے نام پر رکھو۔ جبرئیل آسمان سے نازل ہوئے اور خدا کا انہیں سلام کہا اور تبریک و تہنیت دی اس کے بعد کہا: خداوند عالم نے آپ کو مامور کیا ہے کہ اس بچہ کا نام ہارون کے بیٹے کے نام پر رکھو۔ آپ (ص) نے فرمایا: میری زبان عربی ہے!!! عرض کیا: تو اس کا نام "حسن " رکھو تو رسول خدا (ص) نے اس بچہ کا نام حسن رکھا۔ (بحار الانوار، ج 43، ص 238)
امام حسن مجتبی (ع) کی جنادة سے وصیت:
اپنے سفر کے لئے آمادہ ہوجاؤ اور موت آنے سے پہلے اپنا زاد سفر آمادہ کرلو۔ جان لو کہ تم دنیا کو طلب کر رہے ہو اور موت تمہیں طلب کررہی ہے جو دن ابھی نہیں آیا ہے اس دن کے لئے غم و اندوہ کا بوجھ نہ لو، جو تمہارے مقدر میں مال ہے اس سے زیادہ حاصل نہیں کر پاؤگے۔ ہاں اگر کسی جگہ کے خزانہ دار ہو تو یہ الگ بات ہے۔ جان لو کہ مال دنیا کے حلال میں حساب ہے اور حرام میں جزا اور عذاب ہے۔
امام خمینی (رح) فرماتے ہیں :
یہ بہت عظیم مبارک اور مسعود دن اور ساعت ہے جس میں خاندان نبوت کی چوتھی عظیم ہستی نے عرصہ گیتی پر قدم رکھا ہے۔ اس دن کی برکت سے آپ کے شیعہ اور ماننے مالوں استفادہ کریں اور اس عظیم ہستی کی آمد پر جشن و شادی کا پروگرام کریں ۔ ایک دوسرے کو مبارکباد دیں۔ اور اس دن سے انسانیت کے مفاد میں استفادہ کریں کہ معمولی دن نہیں ہے اس میں هدایت اور نورانیت کے عظیم تاجدار نے عالم ہستی کو اپنے وجود سے منور کردیا۔ (صحیفہ امام خمینی )