ماہ مبارک رمضان، دنیاوی مشکلات سے نجات کا بہترین ذریعہ
امام خمینی (رح )ماہ مبارک رمضان کی اہمیت کو بیان کرتے ہوے فرماتے ہیں ماہ رمضان میں سب سے اہم چیز یہ ہے کہ انسان اپنی اصلاح کرے، ہم اصلاح کے محتاج ہیں، ہم تہذیب نفس کے محتاج ہیں، ہمیں آخری دم تک تہذیب نفس کی ضرورت ہے ، انبیاء علیہم السلام بھی اس کے محتاج ہیں یہاں تک کے بڑے بڑے انبیاء علیھم السلام بھی اس کے محتاج ہیں لیکن انھوں نے اپنی احتیاج اور ضرورت کو سمجھا اور اسکے مطابق عمل کیا۔
امام خمینی (رح) فرماتے ہیں اس مہینے میں ہم خداوند متعال کے مہمان ہیں اور خداوند متعال ہمارا میزبان ہے اس میزبانی کا مطلب یہ ہیکہ ہم صرف اس کے بندے بن کے رہیں اور اس دعوت کا مقصد یہ ہیکہ خداوند کریم ہمیں دنیاوی شہوات سے نجات دلاے اور یہ مقصد ت اس وقت تک حاصل نہیں ہو گا جب تک ہم بہت ساری چیزوں کو نہیں چھوڑیں گے اس بارے میں میرے اور آپ کے مولا امیر المؤمنین علی علیہ السلام فرماتے ہیں: میں اٹھا، اور حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے سوال کیا : یا رسول اللہ اس ماہ کا بہترین عمل کیا ہے؟ حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: اس مہینے میں سب سے بہترین عمل ان چیزوں سے بچنا اور دور رہنا ہے جنہیں خداوند عالم نے حرام قرار دیا ہے۔اس سے پتہ چلتا ہے کہ حرام سے پرہیز کرنا ماہ رمضان کا افضل ترین عمل ہے ،اور تقوی اختیار کرنے کی طرف اشارہ ہے یعنی جس طرح انسان جنگل و بیابان سے گزرتے وقت خار و خاشاک سے بچتا ،احتیاط کرتا ہوا آگے بڑھتا ہے ، اپنے لباس کو بچاتا ہے اور آہستہ آہستہ احتیاط سے قدم بڑھاتا ہے تاکہ کوئی نقصان و آسیب نہ پہنچے، اسی طرح چاہیے کہ معاصی و گناہ سے دور رہے اور اپنی زندگی احتیاط سے بسر کرے۔
امام خمینی(رح) فرماتے ہیں دنیاوی مشکلات کیا اصلی وجہ خداو ند متعال کی دعوت قبول نہ کرنا ہے اگر ہم اس کی فرمانبرادار بن جائیں اور اس کی دعوت پر لبیک کہیں تو تمام مشکلات ختم ہو جائیں گی امام خمینی (رح) ماہ رمضان کو دنیاوی مشکلات سے نجات پانے کا بھترین ذریعہ مانتے ہیں اور فرماتے ہیں عید اسی کی ہو گی جو اس دعوت کے آخری لمحات تک پورے خلوص سے حاضر رہے گا۔
حوزہ علمیہ کے ایک دوسرے استاد حجۃالاسلام والمسلمین قائمی نے اس مقدس مہینے کی مناسبت سے اپنے درس میں کہا ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نظرمیں پیٹ، زبان اوردل کا روزہ ہونا چاہیے۔ انسان کے علاج کے دوحصے ہیں ایک پرہیزکرنا اوردوسرا دوائی سے استفادہ کرنا۔ یعنی بیماری کی صورت میں ڈاکٹر ان دوکام کرنے کا مشورہ دیتا ہے۔انہوں نےمزید کہا ہےکہ روحانی بیماریوں کےعلاج کے لیے بھی اسی طرح عمل کرنا چاہیے یعنی روحانی بیماری کےعلاج کے لیے پہلے کچھ اعمال سے اجتناب کرنا چاہیے،غلط اورنادرست عمل روح کو خراب کردیتا ہے جس طرح کہ فاسد اورخراب غذا بدن کو خراب کردیتی ہے،افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہم روح اوراسے سالم رکھنے میں سستی سےکام لیتے ہیں۔
حجۃ الاسلام قائمی نےکہا ہے کہ قرآن کریم میں روح کی غذا کی طرف اشارہ کیا گیا ہے، انسان کے اعمال درحقیقت روح کی غذا ہیں، مثال کے طورپرکہتے ہیں کہ غیبت نہ کروکیونکہ یہ عمل اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھانے کے مترادف ہے، یہ غذا انسان کی روح پراثراندازہوتی ہے۔
انہوں نےمزید کہا ہے کہ انسان اپنے گناہوں کے ذریعے اپنی روح کو عذاب دیتا ہے، کلی طورپرگناہ انسان کی روح کو بیمارکردیتے ہیں۔ عمل صالح روح کی غذا ہے اوراگرکوئی نماز پڑھنے اورروزہ رکھنے کا حوصلہ نہ رکھتا ہو تو اس کی روح بیمارہے اور وہ اچھی غذا کھانے کی صلاحیت نہیں رکھتا ہے۔ جو شخص اللہ تعالیٰ سے مناجات کرنے سے لذت حاصل نہیں کرتا ہےاس کی روح بیمار ہے اوراللہ تعالیٰ نے اسے انتہائی سخت عذاب میں مبتلا کررکھا ہے۔ جو روح بیمارہوجاتی ہے وہ پہلے اپنے رب سے مناجات کرنے کا حوصلہ نہیں رکھتی ہے اورپھروہ اللہ تعالیٰ سے مناجات سے نفرت پیدا کرلیتی ہے اورپھراس کی روح مردہ ہوجاتی ہے۔