یونیورسٹی

یونیورسٹی اور مدارس

علم و عمل ساتھ ساتھ ہیں

اگر ہمارے مدارس اور یونیورسٹیاں، علوم و فنون کے مراکز اور درسگاہیں واقعا اپنے حقیقی معنی میں ہوں اور وہاں تعلیم کے ساتھ ساتھ تزکیہ باطن، تطہیر قلب اور ظاہری آراستگی ہو، دیانتداری ہو، دین کا درس ہو، تو ایسے تعلیمی مراکز ملک کو کامیابی اور کامرانی سے ہمکنار کرسکتے ہیں۔

انسان ہو یا معاشرہ، گھر ہو یا ملک اسی وقت بہتر سے بہتر اور کامیاب ہوسکتا ہے جب اس کے ذمہ دار اور سرپرست افراد تعلیم کے ساتھ ساتھ تزکیہ کئے ہوتے ہوں اور اس راہ میں کوشش کررہے ہوں۔ ورنہ صرف علم اگر نقصان دہ نہیں ہے تو مفید بھی نہیں ہے۔

حضرت علی (ع) نہج البلاغہ میں فرماتے ہیں: علم و عمل ساتھ ساتھ ہیں۔ جب ہم پوری دنیا پر ایک طائرانہ نظر ڈالتے ہیں تو یہی سمجھ میں آتا ہے کہ عالم ہستی میں اسنانوں کی سعادت اور شقاوت کا سرچشمہ یہی مدارس اور یونیورسٹیاں ہیں اور اس سے فارغ ہونے والے ماہر افراد ہیں، انسانیت کو مصائب و آلام سے دوچار کرنے کے ذمہ داری ایسے ہی نام نہاد اور اندر سے خالی لوگ ہیں جو بظاہر پڑھے لکھے کہلاتے ہیں لیکن اندر سے بالکل خالی اور ڈھول کا پول ہوتے ہیں۔

وہی انسان انسانیت کا رہنما بن سکتا ہے جو زبان سے پہلے عمل سے لوگوں کو درس دے اور جو ظاہر کو سنوارنے سے پہلے اپنے باطن کو سنوارلے۔ انسانوں کو تباہ و برباد کرنے والے اتنے سارے ہتھیار، اسلحے، ایجادات اور جنگی ساز و سامان اور سائنسی ترقی انہی سائنسدانوں اور دانشوروں کی وجہ سے ہے جو یونیورسٹیوں سے پڑھ نکلے ہیں، لیکن نفس کی آراستگی اور باطن کی طہارت کئے بغیر نکلے ہیں۔

اسی طرح ایک قوم یا مختلف اقوام کے اندر رونما ہونے والی خرابیوں اور آئے دن ہونے والے فسادات کے ذمہ دار اسلامی احکام پر عمل نہ کرنے والے مدارس ہیں۔ سارے جعلی اور خود ساختہ ادیان ومذاہب اور فرقوں کو جنم دینے والے یہی مدارس اور اس کے فارغ التحصیل علماء اور دانشور ہیں۔

اسلام کے ساتھ وفاداری، اخلاق و کردار اور تزکیہ باطن سے عاری علم، علماء اور یونیورسٹیوں نے اپنے اور معاشرہ کو خرابیوں سے دوچار کردیا ہے اور انسانیت سوز مظالم کا سرچشمہ بن گئے ہیں۔ اگر علم و مہارت اخلاق اور تزکیہ نفس سے خالی ہو اور اس کے ساتھ آگاہ اور دیانتدار لوگ نہ ہوں، تو اس کا نتیجہ وہی ہوگا جو ہمارے سامنے ہے۔ آپ پوری دنیا پر ایک نظر دوڑائیں گے تو یہی اندازہ ہوگا کہ ملک میں بڑی سے بڑی اور تمام اسباب و وسائل کے ساتھ یونیورسٹیاں، تعلیمی اور ترقی کے مراکز موجود ہیں پھر بھی انسان ان کی غلط سوچ، ناپاک ارادہ اور بدنیتی کی بھٹی میں جل رہا ہے، انسانیت پر ہر وز نت نئے طریقے سے افکار ہے۔ انسانیت، سسکیاں لے رہی ہے، فریاد کررہی ہے الیکن کوئی فریاد رس نہیں ہے۔ہر شخص ایک دوسرے کو اپنی نفسانی خواہشات کا نشانہ بنادیا هے، اور اپنے مفادات کی بھینٹ چڑھا رہا ہے۔

اس کا واحد سبب علم تو ہے لیکن اخلاق و کردار نہیں هے، انسان تو ہے لیکن انسانی افکار و خیالات نہیں ہیں۔ دل تو ہے لیکن ہمدردی نہیں ہے، آنکھ ہے مگر ہوس سے بھری ہوئی ہے۔ غرض ایک انسان کے پاس سب کچھ ہے لیکن انسانی افکار و نظریات اور جذبات نہیں ہے۔ ہر طرف بے حیائی، بے غیرتی، نفس پرستی، خود غرضی ہی خود غرضی ہے اور نفس انسانی اپنے علاوہ کے بارے میں سوچتا ہی نہیں کیونکہ انسانی اقدار سے واقف ہونے کی کوشش ہی نہیں کی ہے اور اخلاق و کردار اور الہی سوچ سے عاری ہے۔

ای میل کریں