اس قانون کی منظوری کی خبر پاتے ہی امام خمینی (رح) نے فوراً حضرت آیت اللہ حاج شیخ مرتضی حائری کے گھر کسی ایک شخص کو بھیجا تا کہ وہ حوزہ کے بزرگان اور علماء و مراجع کو اپنے گھر پر مشورہ اور تبادلہ خیال کے ایک دعوت دیں۔ اس جماعت میں قم کے کچھ علماء اور حاج شیخ عبدالکریم حائری کے شاگرد مانند آیت اللہ حاج سید احمد زنجانی؛ آیت اللہ حاج آقا موسی زنجانی کے والد بزرگوار، مرحوم آقا لنگرودی، مرحوم آقا عراقی، مرحوم آقا اراکی اور مرحوم آقا محقق داماد، مرحوم آمیرزا ہاشم آملی اور مرحوم شیخ مرتضی حائری تھے اگر چہ مرجعیت پر فائز نہیں تھے لیکن تمام مراجع کی صف میں شمار ہوتے تھے اور ان کے درمیان دو افراد ایسے تھے جو تمام علماء اور مراجع کے درمیان مقبول اور تقوی و تقدس کے لحاظ سے عوام اور خواص سب کے نزدیک معروف تھے۔ ان میں سے ایک آقا سید احمد زنجانی مرحوم تھے کہ آپ مرجعیت کی تمام لیاقت رکھنے کے باوجود سب کو معلوم تھا کہ یہ اس کے پیچھے نہیں ہیں اور دوسرے حاج عبدالکریم حائری کے بڑے بیٹے؛ آقا شیخ مرتضی حائری تھے جن کا تمام بزرگان اور علماء و افاضل احترام کرتے تھے اور ان کے پاس سب کی رفت و آمد تھی اگر حوزہ میں کبھی دعوت دی جاتی تو سارے علماء اور مراجع خندہ پیشانی کے ساتھ آپ کی دعوت کو قبول کرتے اور دونوں بزرگوں کے گھر پر جمع ہوجاتے تھے۔ اس مٹینگ میں امام کی خاص توجہ اس بات پر تھی کہ سب اتحاد و اتفاق کے ساتھ اس مسئلہ پر عمل پیرا ہوں۔ اسی لئے قم کے مراجع، علماء اور طلاب اور تمام قصبوں اور چھوٹے شہروں کے علماء اور افاضل کی شرکت کے ساتھ جلسے کئے جائیں۔ امام (رح) کی حکمت عملی اور روشن فکری سے یہ جلسہ ہوا اور اس منظور شدہ لائحہ اور قانون کی رد کردی گئی اور امام خمینی (رح) کے موقف اور آپ کی دور اندیشی سے حکومت کی طرف سے ایجاد کردہ سارے شبہے دور ہوگئے اور تمام عمومی افکار کو باخبر کردیا اور دیہات کے سادہ لوح باشندہ جو اب تک حکومت کے دھوکہ میں تھے ہوشیار اور باخبر ہو گئے اور امام کے کلام کی حقانیت اور صداقت کو جان گئے۔
خاطرات سید حسین موسوی، ص 107 تا 110