حضرت امام سجاد (ع) شیعہ عقائد کی روسے چھٹے معصوم اور شیعوں کے چوتھے امام ہیں۔ آپ (ع) سرکار سید الشہداء امام حسین (ع) کے فرزند ارجمند ہیں۔ آپ کو علی بن الحسین کہا جاتا ہے۔ آپ کا نام نامی علی بن الحسین اور لقب "سجاد" اور "زین العابدین" مشہور ہیں۔ آپ 5/ شعبان سن 38 ھج ق کو مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد گرامی حسین بن علی (ع) اور مادر گرامی شہر بانو ہیں۔ آپ خاندان عصمت و طہارت، وحی و نبوت، عبادت و اطاعت اور ایثار و قربانی میں پیدا ہوئے۔
آپ کربلا کے جانگداز واقعہ میں موجود تھے لیکن بیماری اور شدید بخار کی وجہ سے جہاد کربلا میں شریک نہ ہو سکے کیونکہ بیمار پر جہاد ساقط ہے۔ اور آپ کے والد بزرگوار نے آپ کی چاہت کے با وجود جنگ کرنے کی اجازت نہیں دی۔ کیونکہ مصلحت الہی یہ تھی کہ اس عظیم رسالت کے وارث ہوں یعنی امامت اور ولایت کا سلسلہ نہ ٹوٹے۔
10/ محرم سن 61 ھج ق کو آپ کی عمر مبارک تقریبا 24/ سال تھی اور اسی عمر میں آپ منصب امامت پر فائز ہوئے اور واقعہ کربلا کے بعد 35/ سال زندہ رہے اور راز و نیاز اور دعاؤں میں دین اسلام کی بقا کی ضمانت دے دی اور رهتی دنیا تک کے لئے صحیفہ سجادیہ اور رسالہ حقوق چھوڑ گئے جو اہل علم و عرفان کے لئے علم کا بحر بیکراں اور متلاطم سمندر ہے کہ دنیا کے دانشور اور علماء اس سے فیضاب ہوتے رہیں اور ہر کلمہ اور جملہ کا قیامت تک اپنے اپنے انداز اور اپنی سمجھ کے مطابق معنی کریں تو بھی ان کی عمر کافی نہ ہوگی اور قیامت تک اس بحر مواج سے فیض حاصل ہوتا رہے گا۔
امام سجاد(ع) بھی اپنے آباء و اجداد اور اسلاف طاہرین کی طرح سے فضائل و کمالات اور محاسن اور محامد کے حامل تھے اور زندگی کے شعبہ میں ہر قسم کے اخلاقی عیوب و نقائص سے پاک تھے اور حسنات الہی کی جلوہ گری سے کوئی حادثہ اور مصیبت آپ کو روک نہ سکی اور آپ کو برائیوں سے آلودہ نہ کر سکی۔
آپ کی زندگی کا ایک واقعہ ہے کہ آپ کے ایک قریبی شخص نے حضرت کو گالی دی اور برا بھلا کہا تو حضرت نے اس کا جواب نہیں دیا یہاں تک کہ وہ برا بھلا کہہ کر خاموش ہوگیا اور چلا گیا۔ اس وقت اس سرچشمہ فیض نے اپنے چاہنے والوں سے مخاطب ہو کر فرمایا: تم لوگوں نے سنا کہ اس نے مجھے کیا کہا؟ میں چاہتا ہوں کہ تم لوگ میری ہمراہی کرو تا کہ اسے میرا جواب سن سکو۔
خلاصہ یہ کہ حضرت اپنے ساتھیوں کے ساتھ اس کے گھر کی طرف روانہ ہوئے اور آیہ کریمہ "وہ جو غصہ کو پی جاتے ہیں اور لوگوں کو معاف کردیتے ہیں اور خدا نیک کام کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے" پڑھتے ہو ئے چلے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت کو گالی دینے والے سے کوئی سروکار نہ تھا۔ راوی کہتا ہے جب ہم لوگ اس کے دروازہ پر پہونچے تو حضرت (ع) نے کہا: صاحب منزل سے کہو کہ علی بن الحسین آئے ہیں۔ صاحب منزل اپنی تلافی کرنے کی فکر میں تھا اور اس واقعہ کے بارے میں شک نہیں رکھتا تھا۔ دروازہ پر آیا۔ حضرت نے اس سے کہا: کچھ دیر پہلے تم نے میرے بارے میں کچھ باتیں کہی ہیں اگر وہ باتیں مجھ میں ہیں تو ہم اس کی وجہ سے حضرت حق کی بارگاہ میں طلب مغفرت کرتے ہیں اور اگر مجھ میں نہیں ہے اور تم نے غلط کہا ہے تو ہم تمہارے لئے عفو و بخشش کے طلبگار ہیں، یہ سن کر اس نے حضرت کی پیشانی چومی اور کہا: اے فرزند رسول! جو کچھ میں نے کہا وہ آپ میں نہیں تھا۔ یہ تو معافی مجھے مانگی چاہیئے۔
آپ کی ایک سیرت یہ تھی کہ آپ روزانہ صبح کے وقت جسب معاش کے لئے گھر سے باہر جاتے اور جب آپ سے لوگ کہتے کہ اس وقت آپ کہاں جارہے ہیں؟ تو آپ فرماتے: اپنے عیال کو صدقہ دینے کی غرض سے جارہا ہوں۔ لوگوں نے حیرت سے کہا: صدقہ، جواب دیا: ہاں، جو کچھ حلال طریقہ سے حاصل ہوتا ہے وہ بندوں پر حق کا صدقہ ہے۔
خداوند عالم بحق محمد و آل محمد (ص) ہم سب کو رزق حلال کمانے اور صدق مقال کی توفیق عنایت کرے۔ آمین۔
حضرت امام خمینی (رح) فرماتے ہیں:
"علی بن الحسین (ع) کے حالات، آنحضرت کی حق تعالی سے مناجات اور آپ کی لطیف دعاؤں کی وجہ میں آپ خدا کے بندوں کو آداب عبودیت کی تعلیم دے رہے ہیں کے بارے میں کچھ غور و فکر کرو۔ کیا آپ لوگ یہ سمجھ رہے ہیں کہ ائمہ (ع) کے گریے اور حضرت سجاد (ع) کے نالے تعلیم کے لئے تھی اور آپ دوسروں کی تعلیم دے رہے تھے؟
بلکہ یہ عظیم ہستیاں تمام تر معنویتوں اور بلند و بالا مقامات کے باوجود خوف خدا کی وجہ سے روتی تھیں اور جانتی تھیں کہ درپیش راہ کو طے کرنا کتنا دشوار اور خطرناک ہے، کیونکہ عالم قبر، برزخ، پل صراط سے عبور کی مشکلات، قیامت اور اس کے ہولناک انجام سے باخبر تھیں۔ اس لئے ہمیشہ بیقرار اور مضطرب رہتی اور آخرت کی شدید عواقب سے خدا کی پناہ مانگتی رہتی تھیں۔ (شرح چہل حدیث، ص 504)