ایک دلچسپ سبب جو مستقبل والوں کے امام کے بارے میں تحقیق کرنے کا باعث ہوگا یہ ہے کہ امام خمینی (رح) ایک قادر الکلام اور ماہر سخن ہیں اور ہم کہیں کہ صرف لفاظی ہے، نہیں ہے۔ پیغمبر اکرم (ص) کے سلسلہ میں آپ کی تعبیر ہے (کہ فرماتے ہیں): پیغمبر (ص) امی کیوں تھے؟ تا کہ تم لوگ بعد میں یہ نہ کہو کہ پیغمبر (ص) نے قرآن خود ہی بنالیا ہے۔ میں کہتا ہوں کہ امام کا طرز کلام شاید اس وجہ سے تھا کہ بعد میں یہ نہ کہو کہ بیان کی طاقت اور ساحر البیان ہونے کی وجہ سے لوگوں کو تحریک کردیا ہے۔ امام (رح) نے عوام کی گفتگو کے مفہوم کو ظاہر کیا۔ البتہ امام (رح) بہت ہی عام فہم الفاظ اور سادہ انداز میں گفتگو کرتے تھے اور آپ نے ان قالبوں میں جو مفہوم اور مطلب پیش کیا ہے اسے ہر شخص اپنی اپنی سمجھ کے مطابق سمجھتا ہے۔
اسی حسینیہ (جماران) میں امام نے تقریریں کی ہیں کہ عرفا اس سے وحدت وجود اور وحدت موجود سمجھتے ہیں اور عوام الناس بھی کچھ نہ کچھ اپنے اپنی تصور کے مطابق سمجھتے ہیں۔
ہمیں آرمانی شہر کی تعریف کرنا چاہیئے لیکن لس تک رسائی کے لئے بہت احتیاط کی ضرورت ہے کیونکہ آرمانی شہروں کا حصول نا ممکن ہے ورنہ آرمانی شہر نہیں ہے۔ بس اس لئے کہ ہم اس سمت حرکت کریں یا نہ۔ دوسری بات یہ ہے کہ اس نقطہ تک پہونچنے کے لئے ہماری سرعت مناسب ہے یا نہیں۔ ہم ذات پات اور مذہب و ملت کی تفریق سے خالی، فقر و فاقہ سے دور اور مختلف عناوین کے معاشروں کے طالب ہیں، ایسا معاشرہ جس میں فقر و فاقہ، غربت نہ ہو۔ نبوی معاشرہ مدینہ النبی میں فقیر بھی تھا اور یہی حال امیر المومنین (ع) کے دور میں بھی تھا۔ ہم لوگ فقر و فاقہ سے خالی معاشرہ کی طرف حرکت کریں۔ لہذا ہم یہ کہنے کے لئے کہ ہم صحیح سمت جا رہے ہیں یا نہیں تو ہمیں دیکھنا ہے کہ ہم مطلق فقر کو دور کرنے کی سمت حرکت کررہے ہیں یا نہیں۔ دوسرے مرحلہ میں ہماری سرعت ہمارے اسباب و وسائل کے مطابق ہے یا نہیں۔
جب معاشرہ بن جائے تو مومنین، علماء، دینداروں اور انقلابیوں کی بہت زیادہ ذمہ داری ہوجائے گی۔ کل تک تنقید کررہے تھے لیکن آج مسئولیت رکھتے ہیں اور وہ ذمہ داری ہیں نیز ان کی سب سے بڑی ذمہ داری فقراء کی نسبت ہے کہ بعد میں نقصان اٹھانے والا طبقہ ہوگیا اور یہ لفظ صحیح بھی نہیں ہے اور وہی استضعاف ہی زیادہ معنی خیز ہے۔ ہماری تعبیر ہے کہ "عبارتنا شتی و حسنک واحد" ؛ عبارتیں مختلف ہیں لیکن سب کی خوبی ایک ہی ہے۔ اور ہر ایک ہی اس حسن و جمال کی طرف اشارہ کر رہی ہیں۔" یہ ایک عربی شعر ہے کہ اگر ہم نے مکروہ کام نہیں کیا ہے تو آج مکروہ کام کرلیا۔ عبارتیں الگ الگ ہیں لیکن سب کا حسن ایک ہے۔
جب ہم فقر کا جڑسے خاتمہ کریں یا پھر فقر کو ختم کرنے کی طرف حرکت کریں۔ لیکن میں سنجیدگی کے ساتھ عقیدہ رکھتا ہوں کہ انقلاب بہت بڑے بڑے شعبوں میں اس رخ سے کامیاب رہاہے۔ اور کوئی شعبہ نہیں تھا لہذا زیادہ سے زیادہ تلاش کریں ، یہاں پر ساری حکومتوں نے زحمتیں اٹھائی ہیں البتہ اس میں کوئی املا نہ ہوا ہو تو غلط نہیں ہے۔ جب کوئی میدان میں آجائے یقینا غلطیاں بھی ہوں گی۔ اس وقت کام کاج اور معاشی مشکلات کا سامنا ہے لہذا اس کے قبل و بعد غلطی کا امکان ہے۔