سعودی حکام نے یمن جیسے کمزور اسلامی ملک پر حملہ کیا جس کے سبب ہزاروں بے گناہ قتل کردئے گئے، لا تعداد بچے یتیم ہوگئے۔
نبی آخر زمان (ص) نے مسلمانوں کو ایک دوسرے کے بھائی قرار دئے؛ فرمایا:
"کسی کالے کو گورے پر اور کسی گورے کو کالے پر کوئی فوقیت نہیں؛ نبی اور خدا کے دوست ہونے کا معیار فقط تقوی ہوگا"۔
دنیا کے اکیاون اسلامی ممالک کے علماء، مفتی، قاضی اور سکالرز نے لاکھوں کروڑوں خطبے کے خطبے دئے، کتابوں کی کتابیں لکھیں، شعراء نے اپنے کلام کے ذریعے اتحاد و ایمان و تنظیم اور عمل کے ایسے ایسے پیغامات دئے جن کو مشعل راہ بنا کر آگے بڑھتے تو آج عالم اسلام کے قدموں میں دیگر اقوام ہوتیں مگر بجائے غالب ہونے کے مغلوب ہوتے کئے۔ ایک دہائی قبل تک دنیا کے مالدار ممالک مسلمانوں کے تھے، مالدار لوگ مسلمان تھے مگر آج سینکڑوں کے شمار میں نہیں؛ ایسا آخر کیوں ہوا؟ ہم میں کس چیز کی کمی تھی؟
تیل ہمارے پاس، معدنیات ہمارے پاس، جنگلات ہمارے پاس، صحرا ہمارے پاس، پہاڑ ہمارے پاس، سمندر بھی ہمارے پاس، ذہین لوگ ہمارے پاس، ہمارے آباء نے سائنس کی بنیاد رکھی، بحر ظلمات تک گھوڑے دوڑا دئے، ہزار سالوں تک ہندوستان پر حکومت کی؛ مگر اب مشترکہ دشمن سے نبرد آزما ہونے کے ایک دوسرے کے تعاقب میں ہیں۔ ایک دوسرے پر حملہ کررہے ہیں، ایک دوسرے کو زیر کررہے ہیں۔
علامہ اقبال کے شب و روز اسی کشمکش میں گزرے کہ نیل کے ساحل اسے لےکر تا بخاک کاشغر تک ایک ہو جا۔ مسلمانوں میں اخوت کی جہانگیری اور محبت کی فراوانی کا منظر دیکھنے کو ملے کابل کے دل میں کانٹا چبھے تو ہندوستان کے مسلمان محسوس کرے مگر کتنے سالوں سے افغان خانہ جنگی کا شکار ہے، امریکہ اندر گھسا ہوا ہے اور مسلمان آج بھی تماشائی ہیں۔ کتنے سالوں تک ایران اور عراق دو پڑوسی اسلامی ممالک کو آپس میں الجھا دیا۔ صدام کو اچانک یہ خیال کیسے آیا کہ ایران کے اسلامی انقلاب کو کامیاب ہونے نہ دے، پھر اسی صدام نے کویت جیسے چھوٹے سے اسلامی پڑوسی ملک پر ۱۹۹۱ء میں چڑھائی کردی جس کے نتیجے میں امریکی کو خلیج میں گھسنے کا موقع مل گیا، یوں کویت ملک پر ایک دن میں ۸۰ جنگی طیاروں نے بمباری کی۔ سارے مسلمانوں کو کشمیر غیر مسلموں سے آزاد نہیں کراسکے!!
آج مینمار میں کیا ہورہا ہے، کہاں ہے انسانی حقوق کے علمبردار۔ مسلمانوں کی حمیت اور خودی کہاں گئی؛ حالانکہ مسلمانوں کو اتحاد کا شعور بھی آیا تھا اور آنے والے مسائل کو خاطر میں رکھتے ہوئے "عرب لیک" کے نام سے ایک اتحادی تنظیم ۲۲ مارچ ۱۹۴۵ء کو وجود میں لایا تھا جس میں تمام عرب اسلامی ممالک شامل تھے۔ مسلمانوں کے اس انتظام کے بعد دنیا والوں کو ہوش آیا اور ساری دنیا کی ضرورت کے پیش نظر "اقوام متحدہ" کے نام سے عظیم الشان تنظیم ۲۴ اکتوبر ۱۹۴۵ء میں بنائی جس کے منشور میں سرفہرست آنے والی نسلوں کو جنگ کی لعنت سے بچانا مندرج تھا۔ یوں اقوام متحدہ کی نظر دنیا بھر کے ممالک کی سرحدات پر تھی کہ کوئی کسی پر جنگ تو مسلط نہیں کررہا۔ ایسا ہونے کی صورت میں فوراً روکنا نہ مانے تو اصولی کارروائی عمل میں لانا جو اس ادارے کے منشور میں مندرج ہے۔
۲۵ ستمبر ۱۹۶۹ء کو او آئی سی وجود میں آیا۔ اس ادارے کے قیام کا مقصد بھی اسلامی ممالک کے باہمی رنجشوں سمیت بیت المقدس اور مقبوضہ فلسطین کو اسرائیل سے آزاد کرانا تھا۔ اسی طرح ۲۵ مئی ۱۹۸۱ء کو خلیج کونسل کی تنظیم بنی۔ ان تمام اداروں کے قیام کا مقصد اقوام عالم میں مسلمانوں کی سربلندی اور وقار کا اضافہ تھا؛ کمزور اسلامی ممالک کی مدد کرنا تھا اور باہمی روابط کو فروغ دینا تھا مگر ۲۵ مارچ ۲۰۱۵ء سعودی حکام نے یمن جیسے کمزور اسلامی ملک پر حملہ کیا جس کے سبب ہزاروں بے گناہ قتل کردئے گئے، لا تعداد خواتین بیوہ ہوگئیں اور اس سے کہیں زیادہ بچے یتیم ہوگئے۔ سعودی عرب کا حرمین شریفین کی وجہ سے اسلامی ممالک میں امتیاز حاصل ہے، تیل کی وجہ سے اقتصادی حالت بھی بہت بہتر ہے، سالانہ حج اور عمرہ کی کمائی حساب سے باہر ہے، ایسے میں اسے دیگر اسلامی برادر ممالک کے ساتھ شفقت و محبت کا مظاہرہ کرنا چاہئے تاکہ دنیا والوں پر کم از کم یہ واضح ہوسکے کہ جہاں سے اسلام کا آغاز ہوا، جہاں سے نبی آخر الزمان نے تبلیغ شروع کی وہاں کے لوگ اور حکومت اسی حسن خلق کے ساتھ نہایت شائستہ اور شیریں ہے۔
یمن بظاہر کمزور ملک ہے جو براہ راست سعودی حکومت سے نبرد آزما نہیں ہوسکتا۔ اس کے باوجود بھی اگر یمن سے کوئی ایسی کوتاہی سرزد ہوئی تو سعودیہ کو بجائے جنگ مسلط کرنے کے خلیج کونسل تنظیم میں جانا چاہئے تھا تاکہ اس کے ممبران حقیقت کی جانکاری کرکے فیصلہ دے سکے۔ معاملہ زیادہ گھمبیر ہونے کی صورت میں او آئی سی بھی موجود تھی وہ معاملے کو بآسانی رفع دفع کرسکتی تھی اگر یمن ان میں سے کسی کی بات نہ سنتا تو اقوام متحدہ اسی غایت کےلئے بنائی گئی ہے وح مداخلت کرتی اور اسے ڈانٹ ڈپٹ کراکے شورش کی آگ کو بجھا دیتی۔۔۔
مگر بجائے آگ بجھانے کے شعلوں کو مزید ہوا دینے کےلئے ۳۴ اسلامی ممالک کے بین الحکومتی فوجی اتحاد ۱۴ دسمبر ۲۰۱۵ء کو سعودیہ میں ہوا۔ عالم اسلام اس خوش فہمی میں مبتلا ہوگیا اب اسرائیل کی خیر نہیں، مسلمانوں کا قبل اول اسرائیل کے قبضے سے آزاد ہوگا، جہاں جہاں مسلمانوں پر ظلم و بربریت کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں وہاں وہاں تک یہ اتحادی فوج اپنی کارروائی کرےگی اور مسلمانوں کے نشاۃ ثانیہ کا دور واپس آجائےگا مگر حیرانگی اس وقت ہوتی ہےکہ سعودیہ کی جارحیت کو روکنے کے بجائے دیگر اقوام کے ساتھ خود مسلمان لوگ بھی تماشائی بنے بیٹھے ہیں۔ اس پر مزید یہ کہ اسرائیل اور سعودیہ کے مابین باہمی روابط کو بھی فروغ حاصل ہو رہا ہے۔ ایسے عوامل اسلامی دنیا کےلئے خطرے کی گھنٹی ہے۔ اس طرح مسلمانوں کے درمیان لا محدود شورش پیدا ہونے کے بعد تمام تر ذمہ داری خود سعودیہ پر عائد ہوگی۔
تحریر: ڈاکٹر علی ابوتراب