سب سے پہلے مسئلہ "تغییر جنیت کا جواز" هے۔ امام خمینی (رح) صراحت کے ساتھ فرماتے ہیں: مرد کا عورت اور عورت کا مرد میں تبدل کرنا اسی طرح خنثی کا کسی ایک سے ملحق ہونے کےلئے اقدام کرنا ظاہرا حرام نہیں ہے۔ امام (رح) کے مد نظر دیگر مسائل تغییر جنسیت پر ازدواج، ولایت، گود لینے، میراث اور خانوادگی عناویں مرتب ہوتے ہیں۔
ایک سرجن ڈاکٹر کے دعوی کے مطابق اب تک 1500 لوگوں کے جنس میں تبدیلی آچکی ہے اور اگر اس تعداد کے ساتھ دیگر ڈاکٹروں کی تعداد کا اضافہ کیا جائے تو 500/ هزار تک اس کی تعداد پہونچ جاتی ہے اور اگر دیگر ممالک کی تعداد کا بھی اضافہ کیا جائے تو یہ اس موضوع کی اہمیت کا پتہ دیتی ہے کہ اس مسئلہ کے بارے میں فقہی اور حقوقی لحاظ سے بیان کیا جائے۔ عرب ممالک میں اگر چہ ان کے علماء نے اس کام کو حرام بتایا ہے پھر بھی تغییر جنسیت ہوتی ہے اور ایک اسپتال اسی سے مخصوص بنایا گیا ہے۔ چند سال پہلے تعداد بتائی گئی اور کہا گیا کہ اس ملک میں 300/ افراد نے تغییر جنسیت کا آپریشن کرایا ہے۔ اسی طرح یہ کام تمام ممالک میں کم و بیش انجام دیا جا رہا ہے، بنابریں سارے ممالک اس نومولود موجود سے کسی نہ کسی طرح دست و گریباں ہیں۔
ولچسب بات یہ ہے کہ کچھ دنوں پہلے عربی ممالک سے ایک مریض نے مجھ سے رجوع کیا اور وہ تغییر جنسیت چاہتا تھا۔ میں نے اس سے عرب میں تغییر جنسیت کے بارے میں سوال کیا تو اس نے کہا: ملک میں ڈاکٹر بیماروں کو ہویت جنسیت کے مختل ہونے کی تاکید کرتے ہیں کہ تغییر جنسیت کے لئے ایران یا یورپ جائیں۔
مسلم اور غیر مسلم ممالک میں بڑے پیمانے پر اس آپریشن عملی ہونے کی وجہ سے اس نوظہور مولود کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ شیعہ فقہاء اس تغییر جنسیت کے بارے میں فقہی مباحث چھیڑ دیئے اور اس موجود کے مختلف پہلووں کی وضاحت کی ہے۔
تقربیا 31/ مراجع اور شیعہ فقہاء نے اس بارے میں نظریہ دیا ہے۔ البتہ اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ سارے شیعہ فقہاء تغییر جنسیت کے آپریشن کے موافق ہیں۔ نہیں، بلکہ اکثر موافق ہیں کہ امام خمینی (رح)، آیت اللہ خامنہ ای، آیت الله سیستانی، آیت الله منتظری، آیت الله فاضل لنکرانی، آیت الله صانعی، آیت الله محمد ابراهیم جناتی، آیت الله موسوی اردبیلی، آیت الله محمد مومن اور آیت الله محسن خرازی کا نام لیا جاسکتا ہے۔ ان لوگوں کا کہنا ہے کہ جو لوگ ہویت جنسیت کے اختلال کا شکار ہیں وہ تغییر جنسیت کراسکتے ہیں۔
اس مسئلہ میں شیعہ فقہاء ہی نہیں بلکہ علماء اہلسنت اور عیسائی دانشوروں بھی نظر دینے پر آمادہ ہوئے ہیں۔ کیونکہ تغییر جنسیت سے کچھ سوالات پیدا ہوتے ہیں: اگر جنسیت بدل لیں تو کیا ازدواج اپنی جگہ پر باقی رہے گا یا وہ دونوں خود بخود ایک دوسرے سے جدا ہوجائیں گے یا پھر جدائی کے لئے طلاق اور فسخ جیسے عامل کی ضرورت ہوگی؟ چنانچہ عورت شادی کے بعد تغییر جنسیت کرے تو سابقہ ازدواج کا مہر کا مطالبہ کرسکتی ہے؟ چنانچہ اگر مرد تغییر جنسیت کرے تو سابقہ مہر اس کے ذمہ میں ہے یا نہیں؟ یا مرد اور عورت میں سی کوئی بھی تغییر جنسیت کرے تو نان و نفقہ کے بارے میں کوئی تبدیلی آئے گی؟ چنانچہ مرد جنسیت بدل دے تو بچوں کی ولایت اسے حاصل ہوگی اور عورت جنس بدل کر بچوں کی سرپرست ہوسکتی ہے؟ کیا میراث اس کے بعد بدلے گی؟ اسی طرح لڑکی یا لڑکا کا جنسیت بدل لے تو کیا میراث سابقہ جنسیت کے مطابق ہوگی یا لاحقہ جنسیت کے مطابق ہوگی؟ یه سوالات اور اسی طرح کے بہت سارے سوالات پیش آئیں گے۔
ان سوالات کا جواب، تحریر الوسیلہ جلد 4 صفحہ 479سے 483 تک
جنس تبدیل کرنا
مسئلہ ۱: ظاہر یہ ہے کہ آپریشن کے ذریعہ مرد کو عورت اور عورت کو مرد بنانا حرام نہیں اور اسی طرح خنثی کا آپریشن کرنا حرام نہیں کہ وہ دونوں میں سے کسی ایک جنس سے ملحق ہوجائے اور اگر عورت اپنے اندر ایسی خواہشیں محسوس کرے جو مردوں میں ہوتی ہیں یا مردانگی کے کچھ آثار مشاہدہ کرے یا مرد اپنے عورتوں والی خواہشات محسوس کرے یا ان کی کچھ علامتیں مشاہدہ کرے تو آیا جنس تبدیل کرنا واجب ہے؟ ظاہر یہ ہے کہ واجب نہیں ۔ بشرطیکہ وہ شخص حقیقتاً ایک جنس سے ہو لیکن جنس تبدیل کرانا ممکن ہو۔
مسئلہ ۲: یہ یقین پیدا ہوجانے کا اگرفرض کرلیا جائے کہ وہ آپریشن سے پہلے جنس مخالف میں شامل تھا اور آپریشن اس کی جنس تبدیل نہ کرے بلکہ اس میں چھپی ہوئی علامتوں کو ظاہر کرے تو بلاشبہ جنس واقعی کے آثار پر عمل کرنا واجب ہے۔ اور جنس ظاہری کے آثار پر عمل کرنا حرام ہے۔ پس اگر یہ معلوم ہوجائے کہ وہ مرد ہے تو اس پر وہ واجب ہے جو مردوں پر واجب ہوتا ہے اور وہ حرام ہے جو مردوں پر حرام ہے اور یہی حکم اس کے برعکس کا بھی ہے۔ لیکن شکل تبدیل کرنا اور باطنی مشکل ظاہر کرناواجب نہیں ۔ مگر یہ کہ تمام شرعی امور یا کچھ اورپر عمل کرنا اس پر موقوف ہو اور محرّمات الٰہی سے اجتناب اس کے بغیر ممکن نہ ہو تو واجب ہے۔
مسئلہ ۳: کسی عورت سے شادی کرے اور عورت کی جنس بدل جائے اور وہ مرہوجائے تو جس وقت جنس بدلی ہو اس وقت سے شادی باطل ہوجائے گی اور اگر اس سے پہلے، مباشرت کرچکا ہو تو پورا مہر دینا واجب ہے لیکن مباشرت نہ ہونے کی صورت میں آیا آدھا مہر دینا ہوگا یا پورا؟ اس میں اشکال ہے۔ اشبہ یہ ہے کہ پورا مہر دینا ہوگا۔ اسی طرح اگر عورت مرد سے شادی کرے اور مرد کی جنس بدل جائے تو اسی وقت سے شادی باطل ہوجائے گی۔ اور مباشرت ہوچکنے کی صورت میں مہر دینا ہوگا۔ اسی طرح مباشرت نہ ہوئی ہو تو اقویٰ یہ ہے کہ مہر دینا ہوگا۔
مسئلہ ۴: اگر میاں بیوی کی جنس، ایک دوسرے کی مخالف جنس میں تبدیل ہوجائے۔ چنانچہ مرد عورت ہوجائے اور عورت مرد، تو اگر ایک ساتھ جنس تبدیل نہ ہوئی ہو تو حکم وہی ہے جو بتایا جاچکا ہے۔ لیکن اگر ایک ساتھ تبدیل ہو تو آیا نکاح باطل ہوجائے گا یا ان دونوں کا نکاح باقی رہے گا اگر چہ احکام بدل جائیں گے۔ پس موجودہ مرد پر نفقہ واجب ہوگا اور عورت پر اسکا حکم ماننا؟ احتیاط یہ ہے کہ تجدید نکاح کریں اور موجودہ مرد اس مرد کے علاوہ جس کی بیوی تھا بغیر طلاق کے جو دونوں کی اجازت سے ہو، شادی نہ کرے۔ اگر چہ بعید نہیں کہ دونوں کا نکاح باقی رہے۔
مسئلہ ۵: اگر عدّت کے زمانہ میں عورت کی جنس تبدیل ہوجائے تو عدّت ساقط ہوجائے گی حتّیٰ عدّت وفات بھی۔
مسئلہ ۶: اگر مرد جنس مخالف میں تبدیل ہوجائے تو ظاہر یہ ہے کہ وہ نا بالغوں کا ولی نہیں رہے گا اور اگر عورت کی جنس بدل جائے اور وہ مرد ہوجائے تو اس کے لئے نابالغوں پر ولایت ثابت نہیں ۔ پس ان کا ولّی دادا ہوگا۔ اگر دادا نہ ہو تو حاکم شرع ’’ولی‘‘ ہوگا۔
مسئلہ ۷: اگر بہن اور بھائی جنس مخالف میں تبدیل ہوجائیں تو ان کا رشتہ منقطع نہیں ہوگا۔ بلکہ بھائی، بہن اور بہن بھائی ہوجائے گی۔ یہی حکم دو بھائیوں یا دو بہنوں کی جنس بدل جانے کا ہے۔ اگر چچا کی جنس بدل جائے تو وہ چچی ہوجائے گی اور چچی کی بدل جانے پر وہ چچا ہوجائے گا۔ ماموں کی جنس بدل جائے تو وہ خالہ ہوجائے گی اور خالہ کی جنس بدل جائے تو وہ ماموں ہوجائے گا۔ یہی صورت دوسرے رشتہ داروں کی بھی ہے۔ اگر نئے بیٹے یا بیٹی کا باپ مرجائے تو موجودہ مرد کو موجودہ عورت کا دوگنا حصّہ ملے گا۔
یہی حال دوسرے طبقات ارث کا بھی ہے۔ لیکن باپ، ماں ، دادا اور دادی کی میراث میں اشکال باقی رہے گا۔ پس اگر باپ کی جنس، جنس مخالف میں بدل جائے تو موجودہ صورت میں نہ وہ باپ ہوگا اور نہ ماں ، اسی طرح اگر ماں کی جنس اگر ماں کی جنس بدلے جائے تو! اس لئے کہ اب جو مرد ہے وہ نہ ماں ہے اور نہ باپ! تو کیا حال ولادت کے لحاظ سے وہ میراث پائیں گے یا قرابت و اولویت کی بناپر پائیں گے یا اصلاً ان کو میراث نہیں ملے گی؟ اس میں تردّد ہے۔ اشبہ یہ ہے کہ میراث پائیں گے۔ اور ظاہر یہ ہے کہ میراث میں ان کے مختلف ہونے کو انعقاد نطفہ کہ وقت سے دیکھا جائے گا۔ پس اس وقت باپ کا حصّہ دوتہائی اور ماں کا ایک تہائی ہے۔ لیکن احتیاط یہ ہے کہ مصالح کرلیں ۔
مسئلہ ۸: اگر ماں کی جنس بدل جائے تو مرد ہوجانے کے بعد بیٹے کی حلیلہ کے لئے وہ باپ کے مانند محرم ہوگی یا نہیں ؟ بعید نہیں کہ محرم ہو اگر چہ اشکال ہے۔ اور اگر باپ کی جنس بدل جائے تو مونث ہونے کی حالت میں وہ بیٹے کے لئے محرم ہوگا یا نہیں اگرچہ ماں نہیں ہے؟ ظاہر یہ ہے کہ محرم ہوگا۔ اگر بہو کی جنس بدل کر وہ مرد ہوجائے تو آیا سابقہ شوہر کی ماں کے لئے محرم ہوگی یا نہیں ؟ اشکال کے باوجود محرم ہونا بعید نہیں ۔
مسئلہ ۹: نسبی قرابت داروں کے بارے میں جو احکام ہم نے بیان کئے ہیں یہی رضاعی قرابت داروں جیسے رضاعی ماں ، باپ، بہن بھائی اور دوسرے رضاعی رشتہ داروں کے ہیں ۔
مسئلہ ۱۰: مذکورہ احکام اس صورت میں ثابت ہوں گے جب واقعاً ایک جنس دوسری جنس میں بدل جائے۔ لیکن اگر آپریشن صرف حقیقت مستور سے پردہ اٹھائے اور آپریشن کے بعد جو مرد ہوجائے وہ حقیقت میں پہلے سے ہی مرد رہا ہو۔ تو اس سے یہ کشف ہوگا کہ جو احکام شکلا ً مرد اور شکلا ً عورت پر جاری ہیں وہ اپنے موضوع سے ہٹ کر جاری رہے ہیں ۔ تو ایسی صورت میں نئے مسائل پیدا ہوں گے۔