گل آقا: انقلاب کا سرچشمہ وہاں ہے جہاں کوچہ و بازار کے لوگ ہیں۔
جماران کے مطابق، کیومرث صابری (گل آقا) نے اپنی یادداشت میں انقلاب اسلامی کے آغاز میں وزارت تعلیم کے اراکین کےلئے سبق آموز موضوع کیجانب اشارہ کرتے ہوئے تحریر کیا ہے:
" انقلاب اسلامی کے آغاز میں جناب شکوہی وزیر تعلیم اور مسٹر رجائی ان کے مشاور تھے اور کچھ عرصے کے بعد رجائی کو وزیر تعلیم اور مجھے ان کا مشیر بنایا گیا۔
امام خمینی سے ہماری پہلی ملاقات اس وقت ہوئی جب امام، حوزہ علمیہ قم میں تشریف فرما تھے، رجائی صاحب کے ہمراہ مختلف شہروں کے مینیجرز پرمشتمل 23 رکنی ٹیم تھی؛ امام سے ملاقات کی غرض سے قم پہچنے کے بعد، ہم اس کمرے میں انتظار کرنے لگے جہاں ایک کمبل بچھا ہوا تھا، کمرے میں انتظار کرتے ہوئے ہم ٹی وی دیکھ رہے تھے اور گھر کے باہر خصوصی ملاقات کےخلاف لوگ احتجاج کرتے ہوئے اسے منسوخ کرنے پر زور دے رہے تھے۔
اسی دوران مسٹر رجائی نے لوگوں سے مخاطب ہوکر کہا: "میں آپ ہی کے کام کےلئے امام سے ملاقات کرنے جارہا ہوں" ایسے میں یکایک لوگوں نے صلوات بھیجنا شروع کیا اور ہم نے سوچا کہ یقینا امام تشریف لارہے ہیں؛ اس لئے ہم امام کے استقبال کےلئے کھڑے ہوگئے لیکن امام تشریف نہیں لائے! ہم نے پوچھا کہ امام کہاں گئے؟ تو ہمیں جواب دی گیا کہ امام، پہلے لوگوں کو جواب دینے گئے ہیں، اس کے بعد تشریف لائیں گے!! ایسا ہی ہوا۔
ہم سے گفتگو کے بعد امام نے دوبارہ عوام کا رخ کیا اور لوگوں سے خدا حافظی کے بعد رخصت ہوئے۔
آقای محمد علی رجائی نے اس وقت کہا: امام نے ہمیں ایک عجیب سبق سکھایا کہ حکام کو معلوم ہونا چاہئے کہ ہمارا واسطہ لوگوں کے ساتھ ہے!
مجھے اچھی طرح یاد ہےکہ سید جلیل سیدزاده ۔ جو بعد میں پارلیمنٹ میں کرمانشاہ کے نمائندے اور پھر تہران کے گورنر بھی رہ چکے تھے ۔ نے امام سے ملاقات اور گفتگو کے بعد جذبات سے کام لیتے ہوئے امام کے شانہ پر ہاتھ رکھتے ہوئے اپنی جانب کھینچا اور ہم نے سوچا کہ امام کے ہاتھ کو صدمہ پہنچ گیا؛ اسی وجہ سے سب کے سب، سیدزاده کیجانب دوڑ پڑے!! تاہم امام نے مسکراتے ہوئے بڑے پیار سے اس کے سر اور چہرے پر نوازش کا ہاتھ پھیرایا؛ سید جلیل سیدزاده، امام خمینی سے والہانہ محبت کرتے تھے۔
اس ملاقات میں مسٹر رجائی نے امام کے سامنے اپنی رپورٹ پیش کی اور امام نے طلباء کے بارے میں سفارش کی اور ان کے نام اپنا پیغام بھیجا۔ اس کے علاوہ کسی دوسرے موضوع پر بحث نہیں ہوئی تاہم اس ملاقات کے دوران میں نے ایک عملی سبق سیکھا اور وہ یہ تھا کہ انقلاب کا سرچشمہ وہاں ہے جہاں کوچہ و بازار کے لوگ ہیں۔