مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جس دن شاہ کے سپاہیوں نے قم پر حملہ کیا اور خصوصا مدرسہ فیضیہ کو نشانہ بنایا اور اس میں موجود طلاب کرام کو مدرسے کی چھت سے زمین پر گرا گرا کر شہید کیا گیا اور بعض کو زخمی کیا اور اس قدر بے رحمانہ قتل کیا اور کچھ کو ڈنڈوں اور پتھروں سے زد و کوب کیا۔ اس وقت کسی نے امام (رح) سے عرض کی آقا ان کا ارادہ یہ ہے کہ یہ مدرسے نکل کر آپ کے پھر پر حملہ کریں اور آپ کو اپنے ظلم و ستم کا نشانہ بنائیں۔ اگر آپ اجازت دیں تو میں گھر کا دروازہ بند کردوں؟
امام (رح) نے ایک مرتبہ فرمایا: نہیں گھر کا دروازہ کھلا رہے۔
جب دوسری مرتبہ حاضرین نے اسی بات کا تکرار کیا تو اس مرتبہ امام (رح) نے کافی سخت لہجے سے جواب دیتے ہوئے فرمایا کہ نہیں گھر کا دروازہ کھلا رہنے دیں۔
جب تیری مرتبہ انہوں نے پھر وہی کہا، کہ آقا اجازت دیں ہم گھر کا دروازہ بند کرتے ہیں؟
اس پر امام نے بڑے سخت الفاظ میں فرمایا: سید آپ میرے گھر سے تشریف لے جائیں، آپ یہ کہتے ہیں کہ میری اولاد کو مدرسے میں شہید کر رہے ہیں، انہیں مجروح کررہے ہیں اور میں ادھر گھر کا دروازہ بند کردوں تا کہ صحیح و سالم رہوں اور مجھے کوئی مشکل پیش نہ آئے؟
جب سب نے یہ بات سنی تو اس کے بعد کسی نے دروازہ بند کرنے کی بات نہ کی۔
پابه پای آفتاب ، ج 4، ص 50