نور حق شمع الٰہی کو بجھا سکتا ہے کون // جس کا حامی ہو خدا اس کو مٹا سکتا ہے کون
جہاں تک مجھے یاد ہے، میں بچپن سے ہی دین کا شوقین تھا اور میری فطرت نے مجھے دین مبین اسلام سے اطاعت اور وفاداری کا سبق سکھایا ہے۔ اگرچہ میری پیدائش ایک اہلسنت گھرانے میں ہوئی، تاہم زمان طفلی سے ہی میرے ذہن میں جو بھی آئندہ کی تصویر بنتی یا خیال ابھرتا وہ دین کے حدود کے اندر اور فرقہ بندی سے آزاد ہوا کرتا تھا۔ اگر امت کا ہر فرد زندگی کو مسلکی تعصب، نسل پرستی و مذہبی منافرت سے پاک ہو کر تلاش و قیام کرے تو اسلام کی حقیقی تصویر دنیا کے سامنے نمود ہوگی اور مسلمان امن و حق کے سفیر قرار پائیں گے، جس کے مقابل میں دشمن کبھی تفرقہ ڈالنے کا سوچ بھی نہیں سکےگا۔ ہماری سب سے بڑی مشکل یہ ہےکہ ہم سنی سنائی باتوں پر عمل کرتے ہیں۔ ہمیں درست اور مستند معلومات کے تناظر میں واقعات کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ بصیرت کے نہ ہونے کی وجہ سے دشمن ہمارے جذبات کو مجروح کرنے کیلئے مختلف انداز میں کھیل اور منصوبے انجام دیتا ہے اور اس انتظار میں رہتا ہےکہ کب ہم اپنے ردعمل کو غلط طریقے سے ظاہر کریں اور ہماری اجتماعی پہچان داغدار بن جائے۔
خیر، ایران میں کیا ہو رہا ہے؟ پوری دنیا میں موضوع سخن بنا ہوا ہے، بہت سارے دوستوں نے مختلف ممالک خصوصاً کشمیر سے ٹیلی گرام، فیس بک اور واٹس ایپ پر فون کالز اور پیام ارسال کئے اور اصل معلومات جاننے کا تقاضا کیا، ان کی حالت گفتگو سے معلوم ہوتا تھا کہ وہ اسلامی انقلاب کی پائیداری کیلئے فکرمند اور حامی ہیں، تاہم کچھ دوستان نے ایسی خبریں و پوسٹس ارسال کیں کہ جن سے لگ رہا تھا کہ نادانی کی بنا پر وہ ایسے محسوس کر رہے ہیں شاید انقلاب و نظام اسلامی تمام ہوا اور اب بس جشن منانے کی تیاری کرنی چاہیے۔
نور حق شمع الٰہی کو بجھا سکتا ہے کون
جس کا حامی ہو خدا اس کو مٹا سکتا ہے کون
1979ء میں انقلاب اسلامی کی کامیابی کےساتھ ہی ایران میں اڑھائی ہزار سالہ شہنشاہیت کا تختہ الٹ گیا، امریکہ اور برطانیہ کی داخلی معاملات میں دخل اندازی کی کہانی بھی دفن ہوگئی۔ شاہ ایران رضا شاہ پہلوی امریکہ کا منظور نظر تھا۔
امام خمینی نے اسلامی انقلاب کے بدولت امریکہ کے ہزاروں سالہ شیطانی خوابوں اور منصوبوں کو خاک میں ملا کر اسلامی ریاست کے قیام کا اعلان کیا۔ ایرانی عوام نے 98% ووٹنگ سے نظام ولایت فقیہ کو دستور قانون قبول کرکے تمام مادہ پرست نظریات کو مسترد کر دیا۔
امریکہ نے انقلاب کے بعد ہی صدام حسین کی وساطت سے ایران پر آٹھ سالہ جنگ مسلط کی، جس میں ایرانی قوم کو کافی نقصان سے دوچار ہونا پڑا اور عوام نے لاکھوں کی تعداد میں جانی قربانیاں پیش کیں۔ دفاع مقدس کے نام سے مشہور جنگ میں فتح کا سہرا ایران کو ہی حاصل ہوا۔
نظام ولایت فقیہ کے زیر سایہ اسلامی جمہوریہ ایران نے علم، سائنس، ٹیکنالوجی، دفاع اور پیداوار وغیرہ کے میدانوں میں کافی پیشرفت کی۔ انقلاب سے پہلے کھانے پینے کی تمام اشیاء خارج سے ایران وارد ہوتی تھی؛ تعلیم حاصل کرنے کی شرح بہت کم تھی؛ غرص ہر میدان میں عوام کو کمزور اور پسماندہ بناکر یہاں کے قدرتی وسائل کو مغرب لوٹ لیتا تھا۔
نظام ولایت فقیہ کی اساس کی رو سے ہر ظالم کی مخالفت اور مظلوم کی حمایت ایران کی خارجہ پالیسی کا اہم حصہ ہے اور مسلمانوں کے درمیان یکجہتی قائم کرکے کدورت کو دور کرنا انقلاب کا بنیادی ہدف ہے۔ ایران نے سب سے پہلے قابض ناجائز ریاست اسرائیل کو چیلنج کیا اور فلسطینیوں کی سیاسی، سفارتی، اخلاقی اور مالی مدد کا کھلے عام اعلان کیا۔ اگر یوں کہا جائےکہ مسئلہ فلسطین کو ایران نے زندہ رکھا تو کچھ غلط نہیں۔
قبلہ اول اور فلسطین کی آزادی کی مدد کے جرم میں امریکہ نے استعماری قوتوں کے سہارے ایران پر سخت اقتصادی پابندیاں عائد کیں، لیکن ایران نے عظیم قائد و رہبر آیت اللہ العظمٰی سید علی خامنہ ای (مدظلہ) کی بدولت دشمن کے سامنے کبھی گھٹنے نہیں ٹیکے اور ہر سازش کا جواب استقامت سے دیا۔
ایران نے 38 سالہ دور میں آزادانہ طور ترقی کی جو منازل طے کیں، اس کی مثال کسی اور جگہ دیکھنے کو نہیں ملےگی۔ ایران کے مختلف شہروں بشمول تہران، مشہد، اصفہان، شیراز اور قم وغیرہ میں کئی روز قبل پیش آئے احتجاجی مظاہروں کو دنیا بھر کے ذرائع ابلاغ نے اپنی سرخیوں کی زینت بنا لیا اور کئی ممالک میں ٹی وی چینلز پر بحث و مباحثوں کا آغاز شروع کیا گیا۔ وادی کشمیر کے کئی اخبارات کے "اداریہ" و "مضامین" ایران میں حالیہ فتنہ کے حوالے سے لکھے بھرے ملے۔
مجھے اچھی طرح یاد ہے، جب لیبیا، عراق، تیونس، مصر اور شام میں حکومت مخالف مظاہرے برپا ہوئے تو امریکہ اور اسرائیل و اتحادی ممالک نے فوراً جنگ کا آغاز کیا اور فتنہ گروں کی حمایت کیلئے میدان میں کود پڑے۔ دوسری طرف عالمی سطح پر میڈیا اداروں نے شعوری و غیر شعوری طور شام کےخلاف اس جنگ میں اپنی دلچسپی اور ہمدردی کا ثبوت بھی اپنے منفی تبلیغات سے نمایاں کیا۔ تاریخ گواہ ہےکہ شامی عوام کی حمایت کے بجائے ہم نے ظالمین کی پیٹھ تھپتھپائی۔
مظاہروں کا آغاز سب سے پہلے ایران کے شہر مشہد مقدس سے ہوا کہ درجنوں افراد نے مہنگائی اور بےروزگای کےخلاف دھرنے کا اہتمام کیا۔ مہنگائی کےخلاف ہونے والے مظاہرے کچھ ہی دنوں کے اندر ایران کے مختلف شہروں میں پھیل گئے۔ اس کے علاوہ روزمرہ استعمال کی اشیاء میں بھی مہنگائی کی گئی، خصوصاً انڈوں کی قیمت تو دگنی ہوگئی۔ ان مسائل کے تناظر میں مختلف شہروں میں مہنگائی کےخلاف مظاہرے شروع ہوگئے۔ یہ مسائل طبعی ہیں اور ہر ملک میں عوام اپنے جائز مطالبات کو لےکر احتجاج کرنے کا حق رکھتی ہے؛ جیسا کہ رہبر معظم و مراجع اعظام نے کئی بار عوام کی جائز مطالبات کو پورا کرنے کیلئے حکومت پر زور دیا۔ ایرانی قانون کے مطابق عوام کو احتجاج کرنے کا حق حاصل ہے، جو کہ فتنہ آرائی سے پاک ہو۔ یہاں گرانی اور بےروزگاری کےخلاف مظاہرین کی تعداد کم تھی، لیکن شرپسند عناصر اس فرصت کی تلاش میں تھےکہ کب مظاہروں کو متشدد بنایا جائے۔
قرآن نے اسلام کے دشمنوں کو احمق قرار دیا ہے۔ ان مظاہرین نے مہنگائی کے بجائے نظام کےخلاف نعرے بلند کئے اور پلے کارڈز پر جو شعار درج تھے، ان میں "نہ عزہ نہ لبنان، جانم فدای ایران" اور "نہ اسلام نہ قرآن، جانم فدای ایران" وغیرہ، جس کے معنی ہمیں نہ فلسطین چاہیے نہ حزب اللہ، ہمیں ایران عزیز چاہیے اور ہمیں نہ اسلام چاہیے نہ قرآن بلکہ فقط ایران۔
ہفتے کے روز پیش آنے والے واقعات میں ایک چیز مشترک تھی کہ احتجاج کے دوران حکومتی معاشی پالیسیوں کو نشانہ بنانے کے بجائے نظام کو نشانہ بنایا گیا۔ یہ ریلیاں بنا کسی لیڈر کے مارچ کر رہی تھیں اور یوں کہا جائےکہ بے لگام گھوڑے کے مانند؛ کئی مقامات پر مساجد اور امام بارگاہوں کو نشانہ بنایا گیا، کئی شہروں میں سرکاری و عوامی املاک کو نذر آتش کیا گیا اور مذہبی مقدسات کی توہین بھی کی گئی۔
ان مظاہروں کی بڑے پیمانے پر کوریج میں یورپی، اسرائیلی اور عربی میڈیا پیش پیش رہا۔ یہاں مشاہدہ کیا گیا کہ ویب سائٹس اور ٹیلی گرام پر کئی گروہ بنائے گئے تھے، جن کی مدیریت خارج از ایران سے انجام دی جاتی ہے۔ تازہ رپورٹس کے مطابق، روس کے ایک یہودی جنہوں نے حالیہ اسرائیلی وزیراعظم نیتن ہاہو سے ملاقات کی تھی، ایک ٹیلی گرام گروہ کے مدیر تھے، جو نظام کےخلاف منفی پروپیگنڈہ میں مصروف عمل تھا اور آن لائن "پیٹرول بمب" بنانے کی ٹرینگ دے رہا تھا، جس کے بعد ایران حکومت نے ٹیلی گرام اور دیگر کئی سماجی ویب سایٹوں پر عارضی پابندی لگا دی۔
ایران پولیس و سپاہ نے جس صبر، استقامت اور دوراندیشی کا مظاہرہ کیا، اس کیلئے واقعاً وہ سلام اور تحسین کے حقدار ہیں۔ ایرانی قانون کے مطابق پولیس عوامی دھرنوں میں دخالت نہیں کرسکتی، تاہم فتنہ گری کی نسبت دفاع ضروری کرسکتی ہے۔ بلوائیوں نے کئی مقامات پر پولیس چوکیوں پر حملہ کرکے اسلحہ چھیننے کی کوشش کی، جس کے نتیجے میں پولیس کو طاقت کا استعمال کرنا پڑا۔ کئی مقامات پر فتنہ گروں نے اسلحہ ہاتھوں میں لےکر پولیس کو نشانہ بنایا۔ ٹیلی گرام کے ذریعہ منفی اور جھوٹا پروپیگنڈہ جس انداز سے گردش کر رہا تھا، انسانی عقل حیران رہ جاتی ہے۔
ایک دلچسپ بات یہ کہ امریکہ اور اسرائیل نے بنا کسی تاخیر فتنہ گروں کی حمایت اور اپنی ہمدردی کا اعلان کیا۔ اگر بالفرض مہنگائی پر احتجاج ہو رہا تھا، جو کہ ہر ممالک میں حسب معمول ہوتا ہے، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور صیہونی وزیراعظم نیتن یاہو میں کیوں بے چینی پائی جاتی تھی؟ مسٹر ٹرمپ شاید بھول گئے کہ صدر بننے کے فوراً بعد مسلمان ممالک کے شہریوں پر امریکہ میں داخل ہونے پر پابندی عائد ہونے والوں میں ایران سرفہرست تھا۔
دوسری جانب اسرائیلی حکومت نے فتنہ گروں کی حوصلہ افزائی کی اور زور دیا کہ اسلامی نظام کے خاتمے میں ہی ایران ترقی کرسکتا ہے۔ اس دوران سپاہ پاسداران کے چیف کے مطابق تین سے چار روز میں ہونے والے تمام مظاہرین کے تعداد کل ملاکر 15000 ہزار تک بتائی گئی اور حکومت نے اعلان کیا کہ ان سے اب سختی کےساتھ نمٹا جائےگا۔
رہبر معظم انقلاب حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے ملت سے مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:
"کوئی میرے خلاف نعرہ لگائے یا میری تصویر کی اہانت کرے تو آپ صبر کا مظاہرہ کریں، کیونکہ یہ لوگ ناداں اور بے بصیرت ہیں۔ اپنی قوت کو دشمن کی شکست کیلئے استعمال کریں، یقیناً امت مسلمہ اسرائیل کی نابودی اور فلسطین کی آزادی کا مشاہدہ کرےگی، ان شاء اللہ۔
ایرانی عوام نے بصیرت کی بدولت فتنہ گروں سے برائت اور نظام ولایت فقیہ سے تجدید عہد کا اعلان کرتے ہوئے لاکھوں کی تعداد میں سبھی شہروں میں ریلیاں نکالیں اور واضح کر دیا کہ ہم اسلامی نظام کی حفاظت اور دنیا بھر کے مظلوموں کی حمایت کرنے سے دستبردار نہیں ہونگے"۔
امریکہ، اسرائیل و اس کے ہمنوا جتنی بھی سازشیں اور منصوبے بنائیں گے، ہم اپنے رہبر و سالار خلف صالح امام خمینی، سید علی خامنہ ای اور مراجع عظام کی قیادت میں فتح کا پرچم بلند اور باطل کو شکست سے دوچار کرینگے۔
عالمی میڈیا کو چاہیےکہ ان ریلیوں سے سبق حاصل کرتے ہوئے منفی پروپیگنڈہ کی روش کو خیر آباد کہیں، کیونکہ قرآن کریم کی سورہ حجرات کی آیہ 6 میں ارشاد فرماتے ہیں:
"اے ایمان والو! اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی سی خبر لائے تو اس کی تحقیق کیا کرو، کہیں کسی قوم پر بے خبری سے نہ جا پڑو، پھر اپنے کئے پر پشیمان ہونے لگو"۔
امت مسلمہ ایک جسم کی مانند ہے اور اگر ایک حصے کو تکلیف پہنچے تو پورے جسم میں درد محسوس ہونا چاہیے۔ اگر علمائے کرام، دانشور و صحافی حضرات، جوانان اور عوام اپنی طاقت و قابلیت کو امت و انسانیت کی فلاح کیلئے مثبت انداز میں استعمال کریں تو دشمن مسلمان ممالک کے اندر مداخلت کرنے کی جرات نہیں کرےگا، ہمارے وسائل بھی ہمارے ہاتھ میں باقی اور محفوظ رہیں گے۔
آخر میں تاریخ اسلام کا ایک واقعہ نقل کرتا ہوں، جو ہم سب کیلئے ہر زمانے میں جہالت سے نکلنے کا وسیلہ ثابت ہوسکتا ہےکہ جب امیرالمومنین امام علی بن ابیطالب (ع) کو مسجد کوفہ میں شہید کیا گیا تو شام میں یہ سخن عام تھا کہ علی مسجد میں کیا کر رہا تھا؟ کیا علی بھی نماز پڑھتا تھا؟ اس زمانے میں نہ انٹرنیٹ تھا اور نہ ٹیلی گرام، واٹس ایپ، فیس بک وغیرہ کہ لمحوں میں جہان کے حالات اور واقعات ایک جگہ سے دوسری جگہ نشر و منتقل ہوتے ہیں۔ وہ علی ؑ جو پیغمبر کے دوش مبارک پر سوار ہو کر مکہ میں بت گراتا ہے اور غدیر خم میں مولا قرار پایا ہے، جب منفی پروپیگنڈہ، امام علی ؑ جیسی شخصیت کےخلاف دہن بہ دہن اثر ڈال سکتا ہے تو آج کے دور میں منفی پروپیگنڈہ کیوں نہیں؟
تحریر: وسیم رضا ۔ سرینگر
معصومہ قم