لوگ فکری اصول کے حامل مرجع سے مقابلہ کرتے تھے۔ امام خمینی (رح) ملی جالی ثقافت کے مخالف تھے یعنی امام اسلام کسی دوسری چیز سے مخلوط ہوجائے یا اسلام پر کسی طرح کا کوئی غلاف چڑھا دیا جائے کے مخالف تھے۔
امام خمینی (رح) کی تحریک ایک بے نظیر یا کم نظیر تحریک تھی۔ ایسا لگتا ہے کہ امام(رح) کا انقلاب ایک فکری بنیاد رکھتا تھا۔ اصولی طور پر ہر انقلاب عام طور پر ایک ثقافتی سلسلہ کا حامل ہوتا ہےکہ اگر یہ ثقافتی بنیاد معاشرہ میں عملی نہ ہو تو انقلاب بھی کسی جگہ نہیں پہونچے گا اور موثر بھی نہیں ہوگا۔ ہاں، ہم دیکھتے ہیں کہ امام(رح) نے جب سے مقابلہ شروع کیا ہے اسی دن سے آپ نے بہت کم مقابلاتی اور سیاسی پہلووں پر تکیہ کیا ہے۔ بلکہ مجھے یاد ہے کہ آپ زیادہ تر اعتقادی اصول پر اعتماد کرتے تھے۔ حضرت امام حسین (ع) کا کثرت سے تذکرہ کرتے تھے، شہادت، کربلا کے بارے میں زیادہ گفتگو کرتے تھے۔ یعنی بالکل شاہی نظام کے مد مقابل کہ وہ اپنے بنائے ہوئے ظالمانہ اصول پر تکیہ کرتا تھا تو آپ اس کے خلاف اصول پر اعتماد کرتے تھے۔ امام (رح) اعتقادی، ایمانی اور اسلامی اصول پر اعتماد کرتے تھے۔ لہذا آپ ملاحظہ کریں کہ آپ نے مقابلہ کے اوائل ہی میں ماہ محرم 42 یا 43 میں جب لوگوں نے ماتمی دستہ بنایا تو ان کا نعرہ خود ایک انقلاب کی حکایت کررہاتھا۔ مثلا کہتے تھے قم کربلا ہوگیا ہے۔ فیضیہ مدرسہ قتلگاہ ہوگیا ہے۔ بالکل اسی نقطہ کے مد مقابل جس کی جانب لوگوں کے احساسات کی توجہ ہے۔ (کربلا، امام حسین اور قتلگاہ)
بنابریں یہ خود اس بات کی عکاسی کررہاہے کہ امام تحریک کے اسی اساسی اور محوری نقطہ کی جانب توجہ رکھتے تھے کہ اعتقادی بنیاد پر اعتماد کیا جائے۔ عاشور کے دن آپ کی تقریر تھی۔ ٹھیک ہے یہ اصل ماجرا ہے، کلی طور پر امام (رح) میری نظر میں ایک ثقافتی اصول رکھتے تھے۔
اگر ہم امام (رح) کے فکری اصول کو شمار کرنا چاہیں تو ممکن ہے اس سے زیادہ ہوں جو مجھے نظر آرہا ہے مثلا حضرت امام (رح) کا استعمار اور اغیار کی ثقافتوں سے مقابلہ، امام (رح) اس موضوع پر بہت زیادہ حساس تھے۔ ایرانی، انسانی اور اسلامی ثقافت پر تکیہ بنیاد اور ستون ہے۔ ہم اسے صحیفہ نور میں تلاش کرسکتے ہیں۔ اگر کسی ملت کی ثقافت اغیار سے وابستہ ہو تو چار و ناچار زندگی کے دیگر شعبوں میں بھی اثر انداز ہوگی، مثال کے طور پر اقتصادی، سیاسی اور سماجی تمام شعبوں میں اثر انداز ہوگی۔ یعنی جب تک ایک قوم اپنی ثقافت، اپنے استقلال اور اپنے اندر خوداعتمادی کی ثقافت کے مخالف تھے۔ امام خمینی (رح) کا ایک ثقافتی اصول خشک مقدسی اور ملی جلی ثقافت سے مقابلہ تھا یعنی امام شدت کے ساتھ خشک مقدسی کے مخالف تھے۔ جبکہ اسلام کے بارے میں ہماری سمجھ ایک سطحی سادہ اور معمولی سمجھ ہو۔ امام(رح) نے اس تمدن کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور خشک مقدس افراد بھی امام (رح) کے بہت مخالف تھے۔ امام (رح) جب قم میں درس اخلاق دیتے تھے اگر چہ آپ کے درس اخلاق میں شریک ہونے کی مجھے توفیق نہیں ملی ہے لیکن جو لوگ شریک ہوتے تھے وہ حضرت امام (رح) کے اخلاقی مباحث سے بہت متاثر ہوتے تھے۔ امام کہتے تھے: جب میرے فرزند مصطفی، فیضیہ میں ایک کوزہ پانی پینے کے لئے جاتے تھے تو لوگ کہتے تھے اس کوزہ کو پہلے دھو کیونکہ نجس ہوگیا ہے۔ اس حد تک امام کے ساتھ ایک عالم اور فکری اصول کے حامل مرجع کے ساتھ سلوک کرتے تھے۔