ایک بنیادی سوال یہ ہے کہ دنیا کی دوستی کو کیسے دل سے باہر نکالا جاسکتا ہے جب کہ ہم سب لوگ دنیا کی اولاد ہیں اور اولاد کا اپنی ماں سے محبت کرنا ایک طبیعی امر ہے ۔ بزرگان علم اخلاق نے بہت سے طریقے بیان کئے ہیں ان میں سے کچھ نمونے بیان کئے جا رہے ہیں :
الف: دنیا پرستوں کے قصوں سے عبرت حاصل کرنا
کیونکہ اگر انسان غور کرے کہ فرعون اور قارون جیسے لوگ قدرت وطاقت اور تمام اسباب رکھتے ہوئے بھی آخر کار مٹ گئے یا عظیم قدرتیں صرف ایک ہلکی سی ہوا چلنے سے ان کی زندگی کا دفتر بند ہو گیا صرف ایک رات اور دن کی گردش میں تخت قدرت وسلطنت سے نیچے گر گئے وہ اپنے محل اور سارے مال چھوڑ کر نکل جاتے ہیں یا خاک کے اندر چھپ جاتے ہیں ۔۔۔ یہ سب سوچ کر اس کے دل سے دنیا کی محبت باہر نکل جاتی ہے۔
ب: موت کو یاد کرنا
موت اور اس کے انجام کو یاد کرنے سے انسان کو یہ یقین حاصل ہو جاتا ہے کہ اپنے کو ایک مسافر سمجھے، فرصتوں سے استفادہ کرے اور اپنی آخرت کیلئے زاد راہ فراہم کرے کیونکہ اگر انسان موت سے فرار کرے گا موت اس سے فرار نہیں کرے گی کیونکہ ہر سانس موت کی طرف ایک قدم ہے۔
امام خمینی (رح) نے اس سلسلے میں دو علمی اور عملی طریقے بیان کئے ہیں:
اول: علمی طریقہ
اگر انسان غور وفکر کے ذریعہ دنیاسے محبت کے نتائج اور اس سے حاصل ہونے والے نفع ونقصان کو سمجھ لے پھر ان کا مقائسہ وموازنہ کرے تو اس کے دل سے دنیا کی محبت نکل جائے گی۔ امام خمینی (رح)نے دنیاسے محبت کے بعض نتائج (جن کے بارے میں غور وفکر کرنا دل بستگی سے نجات کیلئے مفید ہے) کو شمار کرتے ہوئے تحریر فرمایا ہے :
اس بیماری سے نجات کیلئے جو نفع بخش علم ہے وہ یہ ہے کہ اس کے نتائج وثمر ات کے بارے میں غور وفکر کرے ۔۔۔ اس کے جو نقصانات ہیں ان کے بارے میں سوچے چنانچہ تھوڑاسا غور کرنے کے بعد معلوم ہو جائے گا کہ اخلاق واعمال کی تمام برائیاں اسی خبیث درخت کا پھل ہیں ۔ دنیا میں کوئی باطل مذہب ودین بھی تاسیس نہیں ہے اور نہ دنیا کے اندر کوئی فساد برپا ہوا ہے مگر وہ اسی موبقۂ عظیمہ کی وجہ سے۔ چنانچہ قتل وغارت اور ظلم وتعدی یہ سب اسی خطا کے نتائج ہیں ، فجور وفحشاء، چوری اور ہر قسم کی برائی اسی جر ثومۂ فساد سے پیدا ہوتی ہے جس انسان کے اندر دنیا کی محبت ہوتی ہے وہ سارے معنوی فضائل سے کنارے ہو جاتا ہے، شجاعت، عفت، سخاوت اور عدالت جو تمام نفسانی فضائل کاسرچشمہ ہیں یہ ساری خوبیاں دنیا کی محبت کے ساتھ کبھی جمع نہیں ہو سکتی ہیں ۔ (آداب الصلوٰۃ، ص ۴۸ )
امام خمینی (رح) نے علمی راستے کی ہدایت کے بعد اپنی عارفانہ نصیحت میں فرمایا ہے :
ایک ہوشیار انسان جو اپنی سعادت وخوش بختی کا خواہاں ہوتا ہے جب وہ یہ سمجھ لیتا ہے کہ دنیا کی محبت تمام برائیوں کی جڑ ہے تو ضروری ہے کہ اس درخت (دنیا کی محبت) کو جڑ سے کاٹ دے۔ ( آداب الصلوٰۃ، ص ۵۰)
دوم: عملی طریقہ
اس کے دو حصے ہیں:
۱۔ جو چیزیں دنیاسے محبت کا لازمہ ہیں ان کے خلاف عمل کرے اور جو چیزیں دنیاسے دوستی کا باعث بنتی ہیں ان کے خلاف راستہ اختیار کرے، آپ تحریر فرماتے ہیں:
علاج کا طریقہ یہ ہے کہ ضد کا معاملہ انجام دے پس اگر اس کو مال ومنال سے دلچسپی ہو تو ہاتھ کھول کر واجبی اور مستحبی صدقہ دے اس کی جڑ کو دل سے توڑ دے چنانچہ صدقے کی جو تاکید کی گئی ہے وہ اسی لئے ہے کہ دنیاسے انسان کی محبت کم ہو اسی لئے مستحب ہے کہ انسان جس چیز کو دوست رکھتا ہے اور جس چیز سے الفت ومحبت رکھتا ہے اسے راہ خدا میں صدقہ دے دے جیسا کہ کتاب کریم میں ارشاد ہوتا ہے: تم کبھی نیکو کاری (کی حقیقت) تک نہیں پہنچ سکتے مگر یہ کہ جن چیزوں کو دوست رکھتے ہو انہیں (راہ خدا میں ) خرچ کرو۔( سورۂ آل عمران، ۳؍ ۹۲)
۲۔ امام خمینی (رح) کے نزدیک دنیا کی دل بستگی سے نجات حاصل کرنے کیلئے ایک دوسرا عملی طریقہ دل کو الٰہی کرنا ہے اپنے دل کو ایسا بنا لے کہ وہ صرف حق واولیا ء اور دار کرامت کی طرف توجہ کرے ۔ واقعاً اگر ایسا ہو جائے تو دنیا کی محبت دل سے نکل جائے گی۔
ہاں ! وہ لوگ دنیا کے شیدائی بن گئے اور اسے دوست رکھتے ہیں جن کا دل عشق الٰہی اور اس کی دوستی سے لبریز نہ ہو وہی لوگ تنگ نظری سے دنیا کو حضرت حق کے دار کرامت پر ترجیح دیتے ہیں۔