سید الشہداء، انکے اصحاب اور حضرت زینب نے کربلا سے شام تک کے ہر لمحے میں "ما رایت الا جمیلا" کی تصویر، انسانیت کے سامنے پیش کیا۔
امام خمینی (رح) فرماتے ہیں:
محرم ہے؛ اسے ہر حال میں زندہ رکھو کیونکہ ہمارے پاس جو کچھ ہے اسی محرم کی بدولت ہے؛ یہ مجالس، یہ تبلیغات، یہ انسانیت ساز پروگرام اور ظالم کے خلاف قیام کرنے کے جذبات، سب اسی محرم کے مرہون منت ہیں۔
حضرت سیدالشہداء علیہ السلام کی قربانیوں اور شہادت سے آج انسانیت اور اسلام زندہ و باقی ہے۔ اسلامی افکار کی جلوہ گری اسی محرم سے ہے۔ اگر یہ وعظ و نصیحت اور عزاداری و سوگواری کی مجالس نہ ہوتیں تو ہمارا ملک کامیاب نہ ہوتا۔
(مجموعہ مقالات دومین کنگرہ بین المللی امام خمینی و فرہنگ عاشورا)
دینی محقق حجت الاسلام محمد امین صادقی ارزگانی نےحضرت اباعبداللہ الحسین علیہ السلام کے قیام کے عرفانی پہلووں کے بارے میں لکھا: اگر ہم تاریخ کے ایک ورق کے عنوان سے سید الشہداء (ع) کی تحریک پر نظر ڈالیں تو اگر اس ورق کی ایک طرف دردناک اور غم و اندوہ پر مشتمل ہے تو دوسری طرف مکمل طورپر زیبائی، قربانی، مجاہدت اور بندگی پر مشتمل ہے۔
کونسا ایسا باضمیر اور باانصاف انسان ہےکہ جس کا دل اتنی زیادہ قربانیوں اور حق کے مردوں پر خوش نہ ہو اور ان پاکیزہ لوگوں کی حالت پر رشک نہ کرے۔
یہ بات درست ہےکہ کربلا ایک لحاظ سے ایک دردناک واقعہ ہے لیکن دوسرے زاویے سے یہ ایک عاشقانہ اور عارفانہ واقعہ ہے۔ آپ، کربلا کے ہر لمحہ لمحہ میں ان خوبصورتیوں اور زیبائیوں کا مشاہدہ کرتے ہیں کہ جنہیں سیدالشہداء علیہ السلام اور ان کے اصحاب نے پیش کیا ہے اور امام حسین علیہ السلام اور ان کے ساتھیوں کی شہادت کے بعد حضرت زینب سلام اللہ علیہا نے کوفہ اور شام میں اسیری کی حالت میں مجاہدانہ خطبے دےکر اس زیبائی اور خوبصورتی کو پیش کیا تھا۔
انہوں نے مزید کہا کہ واقعہ عاشورا کے خوبصورت زاویوں سے چشم پوشی نہ کرنے کا ایک راستہ یہ ہےکہ سیدالشہداء علیہ السلام کی اس عاشقانہ تحریک کو عرفانی نقطہ نظر سے دیکھا جائے؛ اگرچہ اس میں کوئی شک نہیں ہےکہ امام حسین علیہ السلام کی تحریک میں جذبات اور محبت موجود ہے؛ البتہ یہ محبت اور جذبہ معمولی نہیں ہے، یہی وجہ ہےکہ لوگ چودہ سو سال گزرنے کے بعد بھی اس طرح گریہ کرتے ہیں۔
آپ دیکھیں کہ اگر کسی کا کوئی عزیز فوت ہوجائے تو چند دن تک اس پر گریہ و زاری کیا جاتا ہے اور اس کے بعد اس پر کوئی گریہ نہیں کرتا لیکن مجالس عزاء میں اس طرح گریہ کرتے ہیں کہ گویا اس وقت کوئی عزیز فوت ہوگیا ہو۔ یہ ایک معمولی محبت نہیں ہے، یہ عشق کی پیاس ہے اور اس نے انسانوں کے دلوں میں ایک حرارت پیدا کررکھی ہے۔
صادقی ارزگانی نے واقعہ عاشور کے زندہ و جاوید رہنے کے سبب کیطرف اشارہ کرتے ہوئے کہا:
ہم دیکھیں کہ اس زندہ و جاوید واقعہ میں اہم کردار کس نے ادا کیا ہے؟ اس کی جاودانگی کا راز یہ ہےکہ انسان کامل اس تحریک کے مرکز میں موجود ہیں کہ جو فقط اللہ کی رضا کی خاطر محبت اور نفرت کرتے ہیں اور حق و حقیقت کے متوالے ہیں۔
اگر ہم اس زاویے سے دیکھیں تو مجالس عزاداری، علمی اور تربیتی یونیورسٹیز ہیں کہ جن میں مرد، عورتیں، جوان اور بوڑھے سب موجود ہیں اور اس یونیورسٹی کی بانی بھی حضرت زینب کبری سلام اللہ علیہا اور پوری تاریخ میں جید اور با عمل، علمائے اسلام ہیں۔