ایران میں امریکی باشندوں کو سیاسی تحفظ دینے کے قانون کی منظوری کے بارے میں امام خمینی (رح) نے 26/اکتوبر 1963ء میں کیپٹالیزم کے ذلت آمیز قانون کے خلاف ایک زبردست تاریخی اور یادگار تقریر کی جو اسلامی تحریک کی تاریخ میں مرکزی حیثیت رکھتی ہے۔ یہ تقریر امام کی گرفتاری اور جلا وطنی کا باعث ہوئی اور نجف اشرف اور اس کے بعد فرانس میں جلاوطنی کے دوران تحریک کی توسیع اور استمرار کا آغاز قرار پائی۔
کیپٹالیزم قانون کی بنیاد پر امریکی باشندے اگر کسی جرم کے مرتکب ہوتے ہیں تو ایرانی حکومت، ایران کی سرزمین پر محاکمہ کرنے کا حق نہیں رکھتی بلکہ ایسے لوگوں کا امریکہ میں خود وہاں کے قانون کے مطابق محاکمہ ہوگا۔
امام خمینی (رح) کے اعتراض میں قابل غور بات اس قانون کی سادہ اور عام فہم زبان میں وضاحت تھی اس طرح سے کہ اس ذلت آمیز قوانین کے عواقب، آثار اور مفہوم ہر شخص کے لئے خواہ وہ علم و شعور اور ادراک و آگہی کی کسی سطح پر ہو، روشن ہو۔ امام نے اپنی تقریر میں کیپٹالیزم کی اس طرح وضاحت فرمائی:
"ایک قانون پارلیمنٹ میں لے جایا گیا کہ اس قانون میں امریکہ کے تمام فوجی مشیر اپنے خانوادوں، کارندوں اور اپنے اداری کارگزاروں اور خدمت گزاروں کے ساتھ جو شخص بھی ان سے رابطہ رکھتا ہے۔ اگر یہ لوگ ایران میں کوئی جرم بھی کریں وہ محفوظ ہیں۔ اگر ایک امریکی نوکر، ایک امریکی باورچی آپ کے مرجع تقلید کا بیج بازار میں مڈر کردے اور اپنے پیروں تلے کچل دے تو ایران کی پولیس اسے روکنے کا حق نہیں رکھتی۔ ایران کی عدالت اس کا محاکمہ نہیں کرسکتی۔ اگر باز پرس کرنا ہی ہے تو وہ امریکہ جائے، امریکہ میں ان کے سربراہ ان کی ذمہ داری کی وضاحت کریں گے۔
سابق حکومت نے اس کو منظوری دی تھی اور کسی سے کچھ بتایا نہیں تھا۔ موجودہ حکومت نے اس منظور شدہ لائحہ کو چند دنوں پہلے پارلیمنٹ میں پیش کیا اور اس کے چنددنوں بعد سینٹ میں لے گئے اور نشست و برخاست سے بات کو تمام کردیا اور اس کے بعد سانس تک نہیں لی..... (صحیفہ امام، ج 1، ص 415)
اور اس کے سلسلے کو آگے بڑھایا اور بات کی مزید وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
اگر کوئی امریکی کتے کو کچل دے تو اس سے بازپرس کریں گے لیکن اگر ایران کا شاہ ایک کتے کو کچل دے تو اس سے بازپرس کریں گے اور چنانچہ ایک امریکی باورچی ایران کے بادشاہ کو کچل دے یا ایران کے مرجع تقلید کو کچل دے تو کوئی اس سے تعرض اور اعتراض کرنے کا حق نہیں رکھتا۔ (صحیفہ امام، ج1، ص 416)
در حقیقت امام خمینی (رح) ہوشیاری کے ساتھ اس قانون ذلت اور عدم مساوات کے مقابلہ میں شاہ کی صورتحال کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ یہ قانون ملک کے حاکم اور شاہ پر بھی نافذ ہوتا ہے۔ یہاں تک ان لوگوں کو بھی شامل ہے جو حکومت اور شاہ کی طرفداری کرتے تھے یا موقف سے بے خبر تھے۔
امام واضح لفظوں میں کیپٹالیزم کو قوم و ملت کی رای اور اس کے نظریہ کا مخالف بتاتے ہیں اور پوری صراحت کے ساتھ قوم کا معالمہ حکومت سے الگ کردیا۔ ان حالات میں جب تقریبا شخص یا کوئی مخالف گروہ حکومت کے غیر قانونی ہونے کا معتقد نہیں تھا یا اگر تھا تو پھر اس میں اظہار کرنے کی جرات نہیں تھی۔ آپ نے صراحت اور درایت کے ساتھ حکومت کو عوامی نہ جانتے ہوئے فرمایا:
" تمام ممالک خیال کرتے ہیں کہ یہ ایرانی قوم ہے جس نے خود کو اس درجہ پست کردیا ہے، نہیں جانتے کہ یہ ایران کا پارلمنٹ ہے یہ ایرانی حکومت ہے۔ یہ پارلیمنٹ قوم سے کوئی ربط نہیں رکھتی۔ یہ پارلیمنٹ نوک نیزہ کے دم سے قائم ہے۔ اس پارلیمنٹ کا قوم سے کیا ربط ہے۔ ایرانی عوام نے ان لوگوں کو ووٹ نہیں دیا ہے۔ صف اول کے علماء اور بہت سارے مراجع تقلید نے ووٹ کو حرام کردیا اور قوم نے ان کی تاسی کرتے ہوئے انہیں ووٹ نہیں دیا لیکن حکومت نے قرآن سے خیانت کی اور پارلیمنٹ کے نمائندوں نے خیانت کی ....." ( صحیفہ امام، ج 1، ص 416)
امام(رح) نے اس زمانه اور حالات میں جب بہت سارے لوگوں پر امریکہ کی تسلط طلب سیاست اور رفتار آشکار نہیں ہوئی تھی امریکی حکومت کو ظالم اور سامراج بتایا اور ملک کی ساری مشکلات کو امریکہ اور اسرائیل کا کرتوت بتایا اور امریکہ حکومت اور اس کے صدر جمہوریہ کو ایرانی عوام کے نزدیک سب سے زیادہ قابل نفرت شخص اور حکومت جانا۔
امام (رح) نے اپنی اس جوشیلی اور تاریخی تقریر (کہ حاضرین کے دائمی گریہ و زاری اور دینی و قومی احساسات اور جوش و جذبہ کے ہمراہ تھی) میں عوام الناس، علماء، مراجع، اسٹودینٹس اور حکومت کے مخالفین کو بیدار اور آگاہ کیا اور خطر کا اعلان کرتے ہوئے اسلامی ممالک کے سربراہوں اور علماء و مراجع سے اسلام کی فریادرسی کی درخواست کی اگر چہ در حقیقت یہ خود امام (رح) تھے جنہوں نے اسلام کی فریاد سنی۔