فرقہ پرستوں اور تکفیری سوچ نے ہی دہشتگردی کو جنم دیا اور اسلام دشمن بیرونی قوتوں کے ایجنٹوں نے غلیظ نعرے اور دہشتگردی شروع کی: انٹرنیشنل حسینی کانفرنس، تکفیریت اور پاکستان کو درپیش چیلنجز
مقررین کا کہنا تھا کہ آئین پاکستان میں مسلمان کی تعریف کرکے مسئلے کو حل کر دیا گیا ہے، جس پر سنی شیعہ کا اتفاق ہے؛ عقیدہ توحید، ختم نبوت اور محبت اہلبیت پر کسی فرقے کی اجارہ داری نہیں، یہ تمام مکاتب فکر کی میراث ہے۔
اسلام ٹائمز کے مطابق، جمعیت علماء پاکستان (نیازی) کے زیراہتمام، پیر معصوم حسین نقوی کی زیر صدارت، دوسری انٹرنیشنل حسینی کانفرنس بعنوان " تکفیریت اور پاکستان کو درپیش چیلنجز " سے خطاب کرتے ہوئے مقررین نے واضح کیا ہےکہ کسی کلمہ گو مسلمان کو کافر کہنے والا خود جہنمی ہے؛ تکفیری سوچ اور خارجیت نے اسلام کو شدید نقصان پہنچایا ہے، اس کے مقابلے کےلئے اور اتحاد امت کےلئے عملی اقدامات کرنا ہوں گے؛ عقیدہ توحید، ختم نبوت اور محبت اہلبیت پر کسی فرقے کی اجارہ داری نہیں، یہ تمام مکاتب فکر کی میراث ہے۔
انہوں نے کہا کہ آئین پاکستان میں مسلمان کی تعریف کرکے مسئلے کو حل کر دیا گیا ہے، جس پر سنی شیعہ، دیوبندی اور اہلحدیث سب کا اتفاق ہے؛ سنی شیعہ اختلافات تاریخی حقیقت ہیں مگر کسی کو کافر، مشرک، ملحد یا مرتد کہنا خود کفر ہے؛ اس طرح کے نعروں نے امت کو عالمی سطح پر تقسیم کیا، شدت پسندی کی بجائے خانقاہی نظام اور صوفی ازم کو فروغ دیا جائے، جس نے ہمیشہ بلا مذہب و مسلک امن کا پیغام دیا اور انسانیت کی خدمت کی ہے۔
لاہور میں ایوان اقبال میں دنیائے اسلام کی عظیم روحانی شخصیت محبوب الٰہی سید علی حسینی سرکار کی علمی، ادبی اور روحانی خدمات کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے تحریک منہاج القرآن کے مولانا محمد حسین آزاد، سربراہ مجلس وحدت مسلمین، سربراہ امت واحدہ پاکستان، جمعیت علماء پاکستان کے مرکزی صدر، پیپلز پارٹی کے رہنما، سنی اتحاد کونسل کے چیئرمین، ملی یکجہتی کونسل کے صدر، اسلامی تحریک کے رہنما، آل پاکستان مسلم لیگ کے سیکرٹری جنرل اور ... نے کہا کہ امن کے قیام کےلئے صوفیاء کی تعلیمات کو عام کیا جائے، دہشتگردی، فرقہ واریت اور تکفیریت کا خاتمہ ہو جائےگا۔
کانفرنس سے صدارتی خطاب میں پیر معصوم نقوی نے کہا کہ قرآن ہماری میراث اور حب اہلبیت ایمان کا حصہ ہے۔ حضرت محبوب الٰہی سید علی حسینی سرکار کا مسلک اتحاد و اتفاق تھا، جس سے لوگوں نے فیض پایا، حسینی فکر کو اجاگر کرکے امت کو درپیش مسائل کا حل تلاش کیا جا سکتا ہے۔
عراق کی تباہی سب کے سامنے ہے، مارنے والا اور مرنے والا دونوں کلمہ گو ہیں، خودکش حملہ آور اسلام کا فہم و ادراک رکھنے سے عاری لوگوں نے تیار کئے، جنہوں نے مزارات اولیاء اللہ، مساجد، امام بارگاہوں اور عسکری اداروں تک کو نشانہ بنایا اور لاکھوں بے گناہوں کو شہید کیا، فرقہ واریت پھیلانے والے افراد اور اداروں کی بیرونی فنڈنگ پر پابندی عائد کرکے تکفیری سوچ کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔ اہلسنت تکفیری سوچ کو ختم کرنا اپنی ذمہ داری سمجھتے ہیں اور اس کےلئے اقدامات بھی کریں گے۔
علامہ امین شہیدی کا کہنا تھا کہ فرقہ پرستوں اور تکفیری سوچ نے ہی دہشتگردی کو جنم دیا، ورنہ شیعہ سنی تو صدیوں سے اکٹھے رہ رہے ہیں۔
پیر اعجاز احمد ہاشمی نے کہا کہ ہماری سیاست کا محور و مرکز نظام مصطفٰی کا نفاذ اور ناموس رسالت کا تحفظ ہے؛ کلمہ گو مسلمان کو کافر کہنا خود کفر ہے۔
علامہ شاہ احمد نورانی نے ملی یکجہتی کونسل کے ضابطہ اخلاق پر اتفاق رائے پیدا کرکے سنی شیعہ اختلافات کو اتفاق کی شکل دی۔
ضیاء اللہ شاہ بخاری نے کہا کہ وحدت امت ہی اسلام کی طاقت ہے۔
صاحبزادہ حامد رضا نے کہا کہ انتہا پسندی کی سوچ نے اسلام اور پاکستان کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ افواج پاکستان نے دہشتگردی کے خاتمے میں عملی اقدامات کئے، حکومت بھی تعاون کرتی تو تکفیری سوچ ختم ہوچکی ہوتی۔
صاحبزادہ ابوالخیر زبیر نے کہا کہ صدیوں سے مسلمانوں میں اختلافات ہیں، مگر انہیں عوامی جلسوں کی بجائے علمی بحثوں کا حصہ بنانا چاہیے، آنے والی نسلوں کو پرامن پاکستان دینا چاہیے۔
مولانا حسن رضا قمی نے کہا کہ شیعہ سنی اختلافات اپنی جگہ عوامی سطح پر اتحاد موجود ہے، اسلام دشمن بیرونی قوتوں کے ایجنٹوں نے غلیظ نعرے اور دہشت گردی شروع کی، مثالی اتحاد امت کے باعث وہ اپنی موت آپ مر چکے ہیں، ان کی سوچ کو ختم کرنے کےلئے حکومت کو اقدامات کرنے چاہئیں۔