عالم تکوین

عالم تکوین کا عالم تدوین کے ساتھ تطابق

عارف تمام جہان کو ایک کتاب اور ظہور حق دیکھتا ہے

امام خمینی  (رح)ور دوسرے عرفاء کے نزدیک آیات کی تاویل کا ایک رائج اصول، عالم ہستی کا قرآن کے ساتھ تطبیق دینا ہے۔ مطلب یہ کہ وجود کے کئی درجات اور مختلف مراتب ہیں  اور قرآن کے بھی کئی مراتب اور درجات ہیں  جس طرح زمین کے مختلف طبقات ہیں ، آسمان کے ساتھ مراتب ہیں ، اسی طرح قرآن کے بھی کئی مراتب ہیں ۔ ان مراتب میں  سے ہر ایک مرتبہ قرآن کے مرتبے کا نمائندہ اور اسے منعکس کرنے والا ہے۔

ایک دوسری تعبیر کے مطابق، جہان تکوین اور کتاب تدوین اﷲ کی مخلوق ہیں  اور دونوں  میں  ایک ہی نظام کار فرما ہے۔ اسی وجہ سے معرفت قران کے ذریعے جہان ہستی کی پہچان ہوسکتی ہے اور کتاب تدوین کی خصوصیات کو جہان تکوین میں  سرایت دے سکتے ہیں ۔

قرآن اﷲ تعالیٰ کے اسم اعظم کی تجلی اور جلوہ گاہ ہے، کیونکہ اسم اعظم ایک جامع اور محیط خصوصیت ہے۔ اس موجود جامع کا جہان تکوین میں  مشاہدہ کیا جاسکتا ہے۔ اﷲ تعالیٰ کی ایک کتاب ہے لیکن اس کتاب کے کئی مراتب، درجات اور مختلف تعینات ہیں ۔ اس لیے ایک مرتبے کا دوسرے مرتبے کے ساتھ موازنہ کیا جاسکتا ہے۔

قرآن اور جہان کے تطابق کے بارے میں  اس مکتب کے ایک مفسر لکھتے ہیں :

جان لو کہ قرآن مجید اﷲ تعالیٰ کا کلام جو اپنے ظہور کے آغاز میں  ہر قسم کی قید اور محدودیت سے آزاد تھا۔۔۔ چونکہ آسمان وزمین قرآن کے اس وصف کے ساتھ اس کے کلام کو سننے اور مطالب کے انعکاس کا تحمل نہیں  رکھتے تھے، اس لیے اﷲ تعالیٰ اسے لا محدود منزلت سے نیچے لایا۔ اسے عقلی محدودیت کے پردے میں  قرار دیا۔ اس جگہ قرآن مجید کے مختلف مراتب جہان کے منعکس کنندہ تھے، مثال کے طورپر اگر جہان کے عقلی مراتب تھے تو ایک مرتبے میں  اس مرتبے کا مصداق قرآن ہوا، پھر اس کے بعد معانی کو تنزل دیا۔ بشری فہم اور محدودیت کے مطابق اسے قرار دیا جس کے نتیجے میں  جہان خارج میں  عالم مثال قرآن کا مصداق قرار پایا۔

اگر اس سے نیچے والا مرتبہ نظر میں  رکھیں  اور عالم اجسام اور محسوسات پر توجہ دیں  تو یہ بھی قرآن کے مصادیق ہیں ۔ پھر اسے اس سے نچلے مرتبے پر لایا گیا اور اس کو آواز، حروف، کتابت اور نقوش کی شکل دی تاکہ کان اسے سن سکیں ۔ اس مرحلے میں  حروف اور نقوش قرآن کے مصادیق بن گئے اور چونکہ وجود کے تمام مراتب قرآن کے مصادیق ہیں  اس لیے قرآن تمام چیزوں  کا بیان کرنے والا ہے اور تم ایسی کوئی خشک وتر چیز نہیں  پاؤگئے جس کا ذکر قرآن میں  نہ ہو۔

عالم تکوین اور عالم تدوین کے درمیان تطابق کے بارے میں  کئی استدلال اور تجزئیے بیان ہوئے ہیں  اور ان سب کا مقصد یہ ہے کہ ایک کی صفات کو دوسرے تک سرایت دی جا سکے اور معرفت قرآن سے جہان اور اس کے اجزا کی پہچان تک پہنچ سکیں ، مثلاً ابن عربی کا عقیدہ ہے کہ چونکہ جہان تکوین بات نہیں  کرتا اور خاموش ہے یہ خدا ہے جو جہان کے متن میں  بصورت ظاہر بات کرتا ہے۔پس سخن خدا سے سخن جہان کو سنا جاسکتا ہے۔ یہ جہان متن حق کی تجلی ہے اور مخلوق بھی حق کی تجلی ہے۔ پس دونوں  ایک ہی حکم رکھتے ہیں ۔ جہان میں  کہ جو خدا کا کلام اور اس کی غیر مکتوب تکوینی تجلی ہے، اﷲ کے کلمات مکتوب اور ملفوظ صورت میں  نہیں  ہیں ، بلکہ خود موجودات ہیں ۔ حق مخلوق اور مخلوق حق ہے۔ جہان طبیعت ایک حقیقت ہے جس کی کئی صورتیں  ہیں ۔( ابن عربی ، فصوص الحکم، ج ۱،  ۴۸، ۷۸، ۱۴۲)

کتاب تدوین اور کتاب تکوین کے درمیان تطابق سے متعلق ایک استدلال امام خمینی  (رح)کا ہے۔ آپ کہتے ہیں  کہ جس طرح اﷲ تعالیٰ کی کتاب تدوین سات یا ستر بطون رکھتی ہے جن کو اﷲ اور راسخون فی العلم کے سوا کوئی نہیں  جانتا، ان کو پاکیزہ اور علم وعمل سے آراستہ لوگ پا سکتے ہیں ، اسی طرح انفسی وآفاقی الٰہی تکوینی کتب بھی ہیں ۔ وہ بھی سات یا ستر بطون رکھتی ہیں ۔( شرح دعائے سحر، ص ۵۹)

بنابریں ، آئیڈیالوجی اور توصیف عوالم کے میں  تاویل تشکیل پائی۔ عارف تمام جہان کو ایک کتاب اور ظہور حق دیکھتا ہے۔ ظہور کبھی تالیفات اور تقاریر میں  تجلی کرتا ہے اور کبھی ہستی ہیں ۔ عالم تکوین اور خلقت میں  ایسے اسرار پوشیدہ ہیں  اور کوشش اور تہذیب نفس کے ذریعے جن کے ظاہر سے باطن تک رسائی حاصل کی جا سکتی ہے۔ کتاب تدوین اور قرآن میں  ایسے اسرار ہیں ۔ عارف تاویل کے ذریعے چاہتا ہے کہ لکھی ہوئی آیات کو حقائق جہان کے مختلف مراتب پر تطبیق دے یا جن امور کا اس نے مشاہدہ کیا ہے ان کو آیات پر منطبق کرے، اس لیے تاویل کا ایک اور شان حاصل کرلینا اور ظاہر میں  کسی ایک چیز کو بیان کرنے والی آیات کو دوسری چیز پر منطبق کرنا، فطری ہے۔ جیسا کہ مفتاح غیب الجمع قونیوی کے شارح نے ’’مصباح الانس‘‘ کے آغاز میں  تمام وجودی صفات کو قرآن اور فرقان بتایا ہے اور اس حدیث { انّ للقرآن ظہراً وبطن }کے پیش نظر بطون قرآن کی عوالم غیبی اور شہودی کے ساتھ تاویل کی ہے۔

ای میل کریں