امام صادق علیہ السلام: جو بھی شخص عقل اور جہل کو پہنچانے، وہ ہدایت پائےگا۔
عرفان اسلامی کی علمی کمیٹی کے صدر نے اس بات پر تاکید کرتے ہوئے کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے بنیادی مسائل میں سے ایک " برداشت اور راوداری " ہے، تصریح کی: ہر انسان جو امر و نہی کرنا چاہتا ہے، اس کا یہ اقدام لوگ کے ساتھ لگاؤ اور عشق کی بنا پر ہونا چاہیئے نہ اس لئے کہ اسے کرسی ملی ہے لوگوں کو ارشاد اور نصیحت کرنا چاہتا ہے۔
جماران کے مطابق، ڈاکٹر فاطمہ طباطبایی نے " انقلاب اسلامی اور تشدد سے پاک " نیشنل کانفرنس میں کہا: امام خمینی(رح) اپنی کتاب " جنود عقل و جہل" کے مقدمے میں لکھتے ہیں: امام صادق (ع) کے حضور عقل و جہل کی بات آئی، آپ نے فرمایا: جو بھی شخص عقل اور جہل کو پہنچانے، وہ ہدایت پائےگا۔
انھوں نے مزید کہا: پیغمبر اعظم(ص) فرماتے ہیں: جو بھی کام غور و فکر کے بغیر انجام پاتا ہے وہ نحس اور شوم ہے؛ برداشت اور رواداری مبارک ہے"۔ برداشت اور پیار و محبت اللہ تعالی کی رحمت کی تجلی ہے اور جس دل میں برداشت ہوتا ہے وہ دل اللہ تعالی کی تمام مخلوقات کے ساتھ پیار و محبت کے ساتھ پیش آئےگا۔
نصیحت اور ارشاد کے باب میں " محبت، نیک جذبات اور رحمت " اصل ہے۔ لہٰذا اللہ تعالی کا پیغام پہنچانے کےلئے رحمت کے علاوہ کوئی اور راستہ ہے ہی نہیں۔ فطرت انسانی کی ضروریات میں سے ایک برداشت اور رواداری ہے اور انسان شناسی کے حوالے سے، امام فرماتے ہیں: "تمام مخلوقات پاک ہیں" اور دنیا شناسی کی نگاہ سے بھی فرماتے ہیں: " دنیا، اللہ تعالی کی رحمت کی تجلی گاہ ہے"۔
خانم طباطبایی نے تاکید کی کہ جو بھی شخص عوام سے بغض اور تشدد کے ساتھ پیش آتا ہے وہ الٰہی فطرت اور عقل سے دور ہوچکا ہے اور اس کی وجہ بھی اس کی خود خواہی ہے۔ اللہ تعالی موسی (ع) سے فرماتا ہے: "فرعون کو ہدایت کرو " جس شخص نے اللہ کی مخالفت کی ہے، اللہ تعالی اپنی رحمت کی بنا پر اپنے نبی(ع) کو اس کی ہدایت کےلئے بھیجتا ہے، کیونکہ اللہ تعالی ہر ایک فرد کی ہدایت چاہتا ہے۔
امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے حوالے سے امام سفارش کرتے ہیں کہ جو شخص امر اور نہی کرنا چاہتا ہے اسے عوام سے محبت اور عشق کے جذبات کے ساتھ یہ کام کرنا چاہیئے، اس لئے نہیں کہ مجھے کرسی ملی ہے اور میں لوگوں کو نصیحت اور ارشاد کرنا چاہتا ہوں۔
جو بھی شخص معاشرے کو ارشاد و نصیحت کرنا چاہتا ہے، اگر وہ پیار و محبت سے پیش آتا ہے تو وہ کامیاب ہوگا ورنہ چھوٹی غلطی بڑی غلطیوں کا پیش خیمہ بنےگی۔