حزب اللہ: سامراجی طاقت، سعودی عرب کے آمرانہ نظام کی پشت پناہی کرتی ہیں اور دین اسلام، پیغمبر اعظم (ص)، قرآن کی توہین اور اسلامی معاشرے کو تباہ کرنے کےلئے داعش کو ایجاد کی۔
جماران کے مطابق، حزب اللہ لبنان کے صدر سید حسن نصر اللہ نے مرحوم شیخ حسین عبید کی تجلیل کے مراسم میں اپنی تقریر میں کہا: حزب اللہ کی تأسیس میں شیخ حسین عبید نے بڑا اہم کردار ادا کیا۔ اس جھادی تحریک کو کسی خاص شخص نے ایجاد نہیں کی، بلکہ اس کا ڈھانچہ، مؤمنین کے ایک گروہ کے عظیم عزم و ارادہ کی تجلی تھی۔ حزب اللہ کی مؤسسین کی کمیٹی ۹ افراد پرمشتمل تھی اور ان سے تقاضا کیا گیا کہ تمام افراد کی جانب سے بطور نمایندہ، ایران جائیں اور امام خمینی کی دیدار سے شرفیاب ہوں اور امام خمینی کے ہاتھوں تمام مسلمانوں کے امام اور مستضعفین عالم کی امید اور رہبر کے عنوان سے بیعت کریں، چنانچہ یہ امر ایمانی، فکری، فقھی، جھادی اور کسب اجازہ کے مقام سے جنم لیتا تھا؛ کیوںکہ ہم مزاحمت کی سمت جا رہے تھے اور ہمارے لئے دیندار افراد کے ناطے، یہ سوال کرنا ناگزیر تھا کہ کیا ہماری یہ مقصد اور اقدام شرعی ہے یا نہیں اور سب سے پہلا شخص کہ جس سے یہ سوال ہونا چاہیئے تھا، امام خمینی تھے تاکہ اس مقصد کے ابتدائی قدم میں عالم اسلام کی عظیم رہبری سے برکت لیا جائے اور آپ ایسا رہبر تھے کہ جن کے ہاتھوں سے اللہ تعالی نے انبیاء(ع) کے خواب کو تعبیر بخشی۔
نصر اللہ نے مزید کہا: پھر جب ۹ شخصیات واپس لوٹے، حزب اللہ کی تاسیس اور سرگرمیوں کا باقاعدہ آغاز ہوا۔ ان ۹ افراد میں منجملہ سید عباس موسوی اور شیخ حسین عبید اور دیگر برادارن تھے جو ابھی قید حیات میں ہیں۔
سید حسن نے اپنی تقریر کے دوسرے حصے میں کہا: جو بھی کہا تھا کہ حزب اللہ ٹرمپ کے آنے سے پریشان ہے؛ ہم اس سے کہیں گے، کیوں؟
ٹرمپ سے پھلے ایک ایسا شخص تھا جس نے اپنے چہرے پر نفاق کا نقاب رکھا ہوا تھا اور بڑی اچھی باتیں کرتا تھا؛ لیکن ہر قسم کی پابندیوں کو لگاؤ کرتا تھا اور جنگیں لڑتا تھا اور یمن کی جنگ کی، جس میں لاکھوں بے گناہ افراد کو بھوکا رکھا گیا، بھرپور حمایت کرتا تھا اور بحرین اور سعودی عرب کے آمرانہ نظام کی پشت پناہی کرتا تھا اور دین اسلام، پیغمبر اعظم (ص)، قرآن کی توہین اور اسلامی معاشرے کو تباہ کرنے کےلئے داعش کو ایجاد کیا۔ ہمیں نئے شخص یعنی جناب ٹرمپ کا شکریہ ادا کرنا چاہیئے؛ کیوںکہ اس نے امریکی حکومت کا اصلی نسل پرست چہرہ سب کےلئے عیاں کیا اور ہمیں اسی دلیل کی بنا پر ان کا قدرداں ہونا چاہیئے کہ جس روز سے وہ کرسی صدارت پر بیٹھا ہے، امریکی حکومت کی حقیقت سب کےلئے آشکار ہوئی ہے۔
انھوں نے مزید کہا: ہماری پریشانیاں اور خوف بہت عرصے پہلے ختم اور ہمیشہ اللہ تعالٰی کی جانب سے دئے گئے وعدوں پر پورا اطمینان رہا ہے، اس لئے ہمیں سنہ ۱۹۸۵، ۲۰۰۰ اور ۲۰۰۶ میں عظیم کامیابیاں نصیب ہوئیں اور یہی کامیابی ہمیں سوریہ، عراق اور یمن میں حاصل ہوگی اور ٹرمپ، اس کے اجداد، بوش اور ان نسل پرستوں میں سے کوئی بھی فرد ہمارے بچوں میں سے کسی ایک بچے کے ایمان اور عمررسیدہ لوگوں کے ایمان کو کوئی ٹھیس نہیں پہنچا سکا اور ہم خوش بین تھے اور ہیں کیوںکہ جو بھی وائٹ ہاؤس میں آتا ہے احمق ہوتا اور یہی امر ہماری کامیابی کی ابتدا ہے۔