سید حسن: شہید بہشتی کی علمی توانائی پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
یادگار گرامی امام نے ۷ تیر (۲۸/۰۶/۱۹۸۱ء) کے حادثے کی مناسبت سے کہا: بہت ہی کم کوئی ہے جو شہید بہشتی کی علمی توانایی کے ساتھ، علوم اسلامی کے میدان میں ظاہر ہوا ہے۔
جماران کے مطابق، حجۃ الاسلام والمسلمین سید حسن خمینی نے اپنے اینسٹاگرام کے اکاؤنٹ میں لکھا:
جمہوری اسلامی پارٹی کے دفتر کے بم دھماکے میں یاران امام کی شہادت کی برسی کے موقع پر تعزیت و تسلیت پیش کرتا ہوں۔
شھید آیت اللہ بھشتی کی شخصیت کی مختلف زاویوں سے توصیف کی گئی ہے، لیکن شاید بہت ہی کم کوئی آپ کی علمی توانائی کے ساتھ علوم اسلامی کے میدان میں وارد ہوا ہو۔ شاید یہی امر بعض شعبوں میں آپ کے خاص اور ممتاز آثار نیز خاص یادداشتیں باقی نہ رہنے سے مربوط ہو۔ میں نے حوزہ علمیہ کی صادق زبانوں سے سنا ہے اور بہت زیادہ سنا ہےکہ آں بزرگوار کی صلاحیت کا جوہر اور فکر و نظر کی ہوشیاری اور ذہانت، منحصر اور لاثانی تھی۔ شہید اُن خاص ابتدائی شخصیات کے زمرہ میں آتے ہیں کہ جنھوں نے امام کے درس اصول میں شرکت کی اور جیسا کہ بعض بزرگان نے لکھا ہے، امام کا درس فقہ و اصول کا پہلا دورہ، شہید بہشتی اور حضرات آیات مطہری اور منتظری کی شرکت کے ساتھ سنہ۱۳۲۵ میں اصول علمیہ کے ابتدائی مباحث سے تشکیل پایا۔
مرحوم بہشتی کی فقھی توانائیاں، آپ کی سیاسی سرگرمیوں کے سایہ میں پوشیدہ رہیں ہیں اور یہ حجاب کم و بیش دیگر عالمان سیاست مدار پر سایہ فکن ہوا ہے؛ اب اس امر کی ضرورت ہےکہ کسی حد تک آپ کی فکر و سخن سے آشنا افراد کی مدد سے اس سایہ کو دور کیا جائے۔ یہ امر آں شھید سعید کے فاضل اور دانشمند فرزندان کی بلند ہمت کا طالب ہے اور انشاءاللہ تعالی سرانجام تک پہنچےگا۔
میں نے بہت سے مراجع عظام اور بزرگ فقہا سے سنا ہےکہ علوم اسلامی کے میدان میں شہید بہشتی سرآمد اور بے نظیر تھے۔