شہید بہشتی نے فرمایا: " ہمارا انقلاب، اقدار کا انقلاب ہے "۔
جماران کے مطابق، حجت الاسلام مسیح مہاجری، جمہوری اسلامی پارٹی کے دھماکے سے زندہ بچنے والوں میں سے ایک ہیں، آپ کا کہنا تھا: ہمارا انقلاب ایک ثقافتی انقلاب تھا۔ انقلاب کے پہلے سالوں میں شہید بہشتی نے فرمایا: " ہمارا انقلاب، اقدار کا انقلاب ہے "۔ یہ کہہ سکتے ہیں کہ اقدار کا انقلاب، اخلاقی انقلاب سے بالاتر ہے۔ جنگ کسی صورت میں بالکل اچھی نہیں؛ لیکن جب تحمیل کیا جائے اسے برداشت کرنا پڑتا ہے؛ ہم جب دفاع مقدس میں وارد ہوئے ہم نے جنگ کو اقدار میں تبدیل کیا اور اگر اسی رویہ کو آگے بڑھاتے اور اسی روش پر چلتے تو آج ہمیں ثقافتی انقلاب کی کوئی ضرورت نہ ہوتی، لیکن جنگ ختم ہوتے ہی غنائم کی تقسیم پر تنازعہ شروع ہوگیا۔ جب طاقت اور کرسی پر لڑائی جھگڑے ہونے لگے، طبیعی طور پر اخلاق میدان سے باہر اور گوشہ نشین ہوگیا۔
مہاجری، رونامہ نگار نے تصریح کی: جنگ کے بعد امام (رح) نے خبردار کیا اور اپنی دس سال کی رہبری کے عرصے میں بار بار تہذیب نفس اور خودسازی کی بات کی۔ مجھے یاد نہیں کہ آپ نے کسی جگہ گفتگو کی ہو لیکن تہذیب نفس کی طرف اشارہ نہ کیا ہو؛ کیوںکہ آپ جانتے تھے کہ جنگ ختم ہوتے ہی طاقت و اقتدار پر جنگ ہوگی۔ امام (رح) دس سال کے عرصے میں تہذیب نفس پر گفتگو اور نصیحت کرتے رہے، یہی چیز سبب بنی تاکہ ملک کے ذمہ دار عناصر اخلاق سے دور نہ ہوجائیں۔
اگر پہلی نسل سب کے سب امام (رح) کے تعیین کردہ راہ پر چلتی اور اخلاقی انقلاب کا بچاو کرتی تو آج کی نسل کی اکثریت اخلاق کا پاس رکھتی۔
مسیح مہاجری نے اپنے انٹرویو کے دوسرے حصے میں کہا: انقلاب کی ابتدا میں میری عمر ۳۰ سال تھی اور میں نے محسوس کیا کہ جناب آغائے بہشتی یا آغائے ہاشمی رفسنجانی بعض مسائل میں سنجیدگی اور پختہ عمل نہیں کرتے؛ اس بناپر میں اعتراض کرتا تھا کہ کیوں آپ کوئی کام نہیں کرتے؟!
مثال کے طورپر جب امام (رح) دل کے ہسپتال میں داخل تھے کہ اسی دوران امام کے اصلی تین یاران یعنی آغائے بہشتی، آغائے خامنہ ای اور آغائے ہاشمی رفسنجانی کے خلاف اس جرم میں کہ انھوں نے جمہوری اسلامی کی پارٹی تشکیل دی ہے، زبردست تحریک شروع ہوئی؛ شدت پسند گروہ بد اخلاقی سے ان تینوں کی شخصیت کو جریحہ دار کر رہا تھا۔
جمہوری اسلامی اخبار کے ایڈیٹر نے مزید کہا: میں نے جمہوری اسلامی کی پارٹی کے مرکزی اجلاس میں، آغایان بہشتی اور ہاشمی رفسنجانی پر اعتراض کیا کہ کیوں آپ کوئی کام اور کوئی بات نہیں کرتے؟؛ آپ لوگ امام کے قریب اور ان سے رابطے میں ہیں اور ان کی ملاقات کےلئے ہسپتال جاتے رہتے ہیں؛ امام سے کہیں کہ آپ لوگ کے بارے میں ایک جملہ کہیں تاکہ یہ مسئلہ اور شور و غوغا ٹھنڈا پڑ جائے۔
حجۃ الاسلام نے تاکید کے ساتھ کہا: انھوں نے مجھے ایک تاریخی جواب دیا؛ آغائے بہشتی نے کہا: آغائے مہاجری چھوڑ دیں! تاکہ ہمارا عمل دشمنوں اور غیروں کے پروپیگنڈوں کا جواب دیں اور ان کے عزائم کو ناکارہ بنائے اور امام کو اپنی ذات کےلئے خرچ نہ کریں۔
اور آغائے ہاشمی رفسنجانی نے بھی کہا: ہم، انقلاب کےلئے ایک ماں کی مانند ہیں اور وہ دایہ۔ ہمیں ہرگز اس بات کی اجازت نہیں دینی چاہئے کہ انقلاب کو کوئی نقصان پہنچے؛ اگر امام تک اس قسم کی خبریں پہنچ گئی تو ممکن ہے دلی بیماری کے پیش نظر، انھیں ہارٹ اٹیک ہوجائے اور فوت کر جائیں اور ہم اصل کو اپنے ہاتھوں سے کھو دیں؛ لٰہذا جس قدر بھی ہمارے خلاف پروپیگنڈا ہوتا ہے ہونے دیں؛ لیکن انقلاب، اصل اور جڑ پر کوئی ضرب نہیں لگنی چاہئے!!
مسیح مہاجری نے تاکید کے ساتھ کہا: اس دور میں کچھ افراد ایسا سوچتے اور عمل کرتے تھے۔ البتہ آج بھی ایسے افراد کم و بیش معاشرے حضور رکھتے ہیں، اللہ کے فضل سے۔ ہم سب پر فرض ہیں کے اخلاقی ایمانی دستورات پر اچھی طرح عمل کریں تاکہ جوان نسل، انقلاب اسلامی کی طرف رخ کریں، انشاءاللہ
حوالہ: جماران خبررساں ویب سائٹ اینڈ عصر ایران