رہبر انقلاب اسلامی: خدا پر عملی بھروسہ، بڑی طاقتوں سے نہ ڈرنا اور اس عملی بھروسے کی مدد سے مشکلات پر غلبہ پانا، دفاع مقدس کا نتیجہ ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے فوج کے کمانڈرز، فوجیوں، آرٹ کے شعبے سے منسلک افراد اور دفاع مقدس کی یاد میں پیش کئے جانے والے پروگراموں کے منتظمین سے ملاقات کی۔ دریں اثنا، آپ نے ایران پر مسلط کردہ جنگ کے آٹھ سالہ دور میں پیش آنے والے واقعات کو آرٹ اور ادب کے ذریعے اور نئے طریقوں سے نئی نسل تک منتقل کرنے پر تاکید کی اور فرمایا کہ ان واقعات کو سماج تک منتقل کرنا، صدقے، نیک عمل اور ایک عظیم روحانی انفاق کے مترادف ہے اور جو لوگ اس شعبے میں سرگرم ہیں وہ در اصل ملک کےلئے معنوی و الہی رزق پہنچانے کے ایک ذریعے کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ آپ نے مزید وضاحت دی کہ دفاع مقدس کے ایام کا ایک اہم اور لافانی درس یہ تھا کہ اگر دل کی گہرائیوں سے اور عمل کے ذریعے خدا پر توکل کیا جائے تو اس ایمانی جذبے کے ذریعے یقینی طور پر تمام رکاوٹوں اور پیچیدگیوں پر غلبہ حاصل کیا جا سکتا ہے۔ جانی اور مالی نقصانات کے باوجود دفاع مقدس نے ہمارے حالیہ دور اور مستقبل پر گہرے اثرات چھوڑے ہیں۔
رہبر معظم نے اس موقع پر فرمایا: خدا پر عملی بھروسہ، بڑی طاقتوں سے نہ ڈرنا اور اس عملی بھروسے کی مدد سے مشکلات پر غلبہ پانا، دفاع مقدس کا نتیجہ ہے اور اگر کوئی بھی معاشرہ ترقی کی سمت گامزن ہونا چاہتا ہو تو اسے عام طور پر رکاوٹوں اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑےگا اور اگر تسلط پسندی اور دنیا پسندی کی مخالفت اور روحانیت بھی اس معاشرے کے اہداف میں شامل ہوں تو رکاوٹوں میں اضافہ ہوجاتا ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا: اگر دل میں ایمان اور عمل میں خدا پر توکل ہو، تو ایسے ارادے کے مقابلے میں پہاڑ بھی ریزہ ریزہ ہوجاتے ہیں اور ان میں مزاحمت کی طاقت نہیں ہوتی۔ سن انیس سو اسّی کے ابتدائی دنوں سے لیکر سن انیس سو بیاسی تک، ایران کےلئے صورتحال انتہائی مشکل تھی۔ فوجی ساز و سامان اور آمادہ اور منظم مسلح افواج کے لحاظ سے ملک کی صورتحال بہت بری تھی جبکہ بعثی دشمن اہواز شہر سے صرف دس کلومیٹر کے فاصلے پر تھا۔ ایسی حالت میں کمانڈروں اور فوجیوں نے خدا پر توکل کیا اور اپنی طاقت اور صلاحیت کی شناخت حاصل کی اور اس بنیاد پر حالات کو بدل دیا اور سن انیس سو بیاسی کے موسم بہار میں فتح المبین اور بیت المقدس نام کے دو فوجی آپریشن انجام دئے جس کے نتیجے میں بعثی جارح افواج کے ہزاروں فوجی گرفتار اور خرمشہر سمیت ملک کے وسیع علاقوں کو دشمن افواج سے آزاد کرالیا گیا۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ مسلط کردہ جنگ کے دوران، امریکہ، نیٹو، سوویت یونین اور علاقے کی قدامت پسند حکومتوں سمیت دنیا کی تمام طاقتیں اسلامی جمہوریہ ایران کے مقابلے پر کھڑی تھیں اور ان حالات میں ہم نے ان طاقتوں کو شکست سے دوچار کیا۔ کیا یہ عملی تجربے، ہمارے اطمینان اور دلی سکون کےلئے کافی نہیں ہیں؟
آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے قرآن کریم کی ایک آیت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہ جس میں کہا گیا ہےکہ اپنے دلوں میں غم اور سستی کو داخل نہ ہونے دو، فرمایا: اگر خدا پر حقیقی ایمان ہو اور اس پر بھروسہ کیا جائے، تو تمام مشکلات اور رکاوٹوں پر ایمانی جذبے کےساتھ غلبہ حاصل کیا جا سکتا ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اس بات پر بھی زور دیا کہ دفاع مقدس کے واقعات اعلی جذبات اور عقلانیت سے مالامال ہیں اور اگر ان کے حقایق اور یادوں کو جو ایک خزانے کی مانند ہیں، آئندہ پچاس سال تک اکھٹا کرنے کی کوشش کی جائے تب بھی ہم ان کی انتہا تک نہیں پہنچ سکیں گے۔