امام خمینی: ﮨﻤﺎﺭﺍ ﮨﺪﻑ ﯾﮧ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯﮐﮧ ﺍﯾﺮﺍﻥ ﺑﭽﺎﺋﯿﮟ اﻭﺭ ﺍﺳﻼﻡ ﻗﺮﺑﺎﻥ ﮐﺮ ﺩﯾﮟ ﺑﻠﮑﮧ ﮨﻤﺎﺭﺍ ﻣﻘﺼﺪ ﯾﮧ ﮨﮯﮐﮧ ﺍﮔﺮ ﺍﯾﺮﺍﻥ ﻗﺮﺑﺎﻥ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ﺗﻮ ﮨﻮﺟﺎﺋﮯ، ﮨﻢ ﺍﺳﻼﻡ ﮐﻮ ﺑﭽﺎ ﻟﯿﮟ۔
حکومت پاکستان نے ماسکو میں شامی حکومت کی حمایت کی؛ اس پر بشار الاسد مخالف تکفیری اور سعودی نواز پاکستانی میڈیا رسوا ہوگیا۔
ساتھ ساتھ وہ مخصوص شیعہ حضرات جو بیرونی ایجنڈے پر نظریہ پاکستان اور پاک فوج کیخلاف پروپیگنڈہ کرتے تھے میں ہمیشہ انہیں سمجھاتا تھا پاکستان سے محبت کرو پاکستان پر ایمان رکھو کسی غیر سے بھلائی کی توقع نہ رکھو کہیں جہالت اور نادانی میں سازش کا حصہ نہ بن جاو۔
دوسری جانب پاکستان میں ایرانی وزیر خارجہ، وزیراعظم، وزیر داخلہ، مشیر خارجہ سرتاج عزیز صاحب، مشیر قومی سلامتی ناصر جنجوعہ صاحب سمیت دیگر فوجی آفیسرز سے مل کر مختلف عالمی ایشوز (کشمیر، شام، یمن، فلسطین، تکفیریت کا خاتمہ) کو حل کرنے کیلئے کام کرینگے۔ افسوس پاکستانی میڈیا اور ان جاہل عوام پر ہے جو برادر اسلامی ملک ایران کی مخالف جھوٹی خبریں بڑھا چڑھا کر پیش کرتی ہے مگر مثبت خبروں کو دبا دیا جاتا ہے، کہیں عوام سچائی سے آگاہ نہ ہوجائے۔
اسی کے ساتھ ساتھ ۱۵ ملین سنی کردوں کو ترکی میں طاقت کے زور پر دبانے والے آمر خلیفہ طیب اردگان نے بھارت جاکر اقوام متحدہ کے سلامتی کونسل کے مستقبل نشست کی حمایت کردی ہے یعنی پاکستان اور کشمیر سے متعلق ہمارے پالیسی سے ترک بھائی نے غداری کردی، چونکہ خلیفہ کا بیٹا بزنس مین ہے اس نے عراق اور شام سے داعش کے دہشتگردوں سے چوری کا تیل سستے داموں خرید کر اسرائیل کو فروخت کیا۔ اسرائیل سے فوجی تعلقات قائم رکھے جس نے لاکھوں بے گناہ فلسطینی عوام کا خون بھایا، شام اور عراق میں اپنے فوجی داخل کردیئے، شامی حکومت کیخلاف دہشتگردوں کی مدد کی سات سالوں سے CIA اور نیٹو کے ساتھ ملکر اپنی تمام دولت و طاقت مسلمان پڑوسی ملک کی خلاف صرف کردیا؛ مگر ہمارے پاکستانی میڈیا اور بلاتحقیق اندھا بھروسہ کرنے والی عوام اب اردگان کیلئے کیا فرمانا پسند کرےگی؟ اردگان کی شان میں قصیدہ لکھنے والی امت اخبار نے یہ خبر چھپا دی کہاں مر گیا ہے ان کی پاکستانیت؟ جس اردگان کے کہنے پر الباکستان نے بنا کسی جواز کے پاک ترک سکولوں کے ہزاروں اساتذہ کو ذبردستی ملک بدر کیا تھا۔
اردگان، سعودی اماراتی حکام مسلمانوں کے روپ میں سامراجی سرمایہ دار ہیں جن کا کوئی دین ایمان مذہب نہیں ہوتا ہے، وہ دولت کا حصول چاہتے ہیں اور پیسے سے سب کو خریدنا جانتے ہیں۔
دوسری جانب قوم پرستی سے ہٹ کر اسلام کیلئے خارجہ پالیسی پر واضح موقف کا ایک نمونہ یہ بھی دیکھئے؛ ﺍﻣﺎﻡ ﺧﻤﯿﻨﯽ(رح) نے ﺟﺐ گستاخ رسول(ص)، ﺳﻠﻤﺎﻥ ﺭﺷﺪﯼ ﻣﻠﻌﻮﻥ ﮐﮯ ﻗﺘﻞ ﮐﺎ ﻓﺘﻮﯼ ﺩﯾﺎ ﺗﮭﺎ ﺗﻮ مرحوم سابق ایرانی صدر ﺭﻓﺴﻨﺠﺎﻧﯽ ﺻﺎﺣﺐ ﻧﮯ ﺍﻣﺎﻡ ﺧﻤﯿﻨﯽ ﺳﮯ ﺟﺎ ﮐﺮ ﮐﮩﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﺍٓﭖ ﻧﮯ ﯾﮧ ﻓﺘﻮﯼ ﺩﮮ ﺩﯾﺎ ﮨﮯ۔ ﺍٓﭖ ﺗﻮﺟﮧ ﮐﺮﯾﮟ ﮐﮧ ﻓﻘﯿﮧ ﺩﯾﻦ، ﺩﯾﻨﯽ سیاﺳﺘﺪﺍﻥ ﺍﻭﺭ ﺩﻧﯿﻮﯼ ﺳﯿﺎﺳﺘﺪﺍﻥ ﻣﯿﮟ کتنا ﻓﺮﻕ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ؟ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﺟﺎ ﮐﺮ ﺍﻣﺎﻡ ﺧﻤﯿﻨﯽ ﮐﻮ ﻣﺸﻮﺭﮦ ﺩﯾﺎ ﮐﮧ ﯾﮧ ﻓﺘﻮﯼ ﻋﺎﻟﻤﯽ خارجہ اﺻﻮﻟﻮﮞ ﮐﮯ ﻣﻄﺎﺑﻖ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ، ﯾﮧ ﺗﻮ ہماﺭﮮ ﻣﻠﮏ ﮐﺎ ﺑﺎﺷﻨﺪﮦ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ، ﯾﮧ ﺗﻮ ﺑﺮﻃﺎﻧﯿﮧ ﮐﺎ ﺑﺎﺷﻨﺪﮦ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﮯ ﻗﺘﻞ کا ﻓﺘﻮﯼ، ﺍٓﭖ ﺍﯾﺮﺍﻥ ﻣﯿﮟ ﺑﯿﭩﮫ ﮐﺮ ﺩﮮ ﺭﮨﮯ ﮨﯿﮟ ﺗﻮ ﯾﮧ ﺗﻮ ﻋﺎﻟﻤﯽ ﻗﻮﺍﻧﯿﻦ ﮐﮯ ﻣﻄﺎﺑﻖ ﻣﺸﮑﻼﺕ ﮐﮭﮍﯼ ﮐﺮﮮﮔﺎ ﻟﮩٰﺬﺍ ﺍٓﭖ ﯾﮧ فتوﯼ ﯾﺎ ﺗﻮ ﻭﺍﭘﺲ ﻟﯿﮟ ﯾﺎ ﭘﮭﺮ ﺍﺳﮯ ﻧﺸﺮ نہ ہونے ﺩﯾﮟ، ﺻﺮﻑ ﺍٓﭖ ﮐﯽ ﺗﻮﺿﯿﺢ المساﺋﻞ ﻣﯿﮟ ﻟﮑﮫ ﺩﯾﺎ ﺟﺎﺋﮯ ﻟﯿﮑﻦ ﺭﯾﮉﯾﻮ اور ﭨﯽ ﻭﯼ ﭘﺮ ﻧﺸﺮ ﻧﮧ ﮨﻮ۔
ﺍﻣﺎﻡ ﺧﻤﯿﻨﯽ(رح) ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ: ﮐﯿﻮﮞ؟
ﺗﻮ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﺍﺱ کی ﺑﮩﺖ ﻣﮩﻨﮕﯽ ﻗﻤﯿﺖ ﮨﻤﯿﮟ ﭼﮑﺎﻧﺎ ﭘﮍﮮﮔﯽ۔
ﺍﻣﺎﻡ ﺧﻤﯿﻨﯽ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ: ﮐﯿﺎ ﻗﯿﻤﺖ ﮨﻤﯿﮟ ﺍﺩﺍ ﮐﺮﻧﯽ ﭘﮍﮮﮔﯽ؟
ﮐﮩﺎ: ﻗﯿﻤﺖ یہ ﺍﺩﺍ ﮐﺮﻧﺎ ﭘﮍﮮﮔﯽ ﮐﮧ ﻭﮦ ﮨﻢ ﺳﮯ ﺗﻌﻠﻘﺎﺕ ﺗﻮﮌ ﻟﯿﮟ ﮔﮯ۔
ﺍﻣﺎﻡ ﺧﻤﯿﻨﯽ ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ: اور ﮐﯿﺎ ﮐﺮﯾﮟ ﮔﮯ؟
ﮐﮩﺎ: ﺍﻭﺭ ﯾﮧ ﮐﮧ ﺍﭘﻨﮯ ﺳﻔﯿﺮ ﻭﺍﭘﺲ ﺑﻼ ﻟﯿﮟ ﮔﮯ۔ ﺑﺎﺋﯿﮑﺎﭦ ﮐﺮ ﺩﯾﮟ ﮔﮯ، ﭘﺎﺑﻨﺪﯾﺎﮞ ﻟﮕﺎ ﺩﯾﮟ ﮔﮯ، شاید ﮨﻤﺎﺭﮮ ﺍﻭﭘﺮ ﺣﻤﻠﮧ ﮐﺮ ﺩﯾﮟ ...
ﺍﻣﺎﻡ ﺧﻤﯿﻨﯽ(رح) ﻧﮯ ﺻﺮﯾﺤﺎ ً ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﺗﮭﺎ: " ﺑﻨﺎ ﻧﯿﺴﺖ ﮐﮧ ﺍﯾﺮﺍﻥ ﺑﻤﺎﻧﺪ، ﺑﻨﺎ ﺍﯾﻦ ﺍﺳﺖ ﮐﮧ ﺍﺳﻼﻡ ﺑﻤﺎﻧﺪ "؛ ﮨﻤﺎﺭﺍ ﮨﺪﻑ ﯾﮧ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯﮐﮧ ﺍﯾﺮﺍﻥ ﺑﭽﺎﺋﯿﮟ اﻭﺭ ﺍﺳﻼﻡ ﻗﺮﺑﺎﻥ ﮐﺮ ﺩﯾﮟ ﺑﻠﮑﮧ ﮨﻤﺎﺭﺍ ﻣﻘﺼﺪ ﯾﮧ ﮨﮯﮐﮧ ﺍﮔﺮ ﺍﯾﺮﺍﻥ ﻗﺮﺑﺎﻥ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ﺗﻮ ﮨﻮﺟﺎﺋﮯ، ﮨﻢ ﺍﺳﻼﻡ ﮐﻮ ﺑﭽﺎ ﻟﯿﮟ ﺍﻭﺭ اﺱ ﻧﮯ ﺍﺳﻼﻡ ﭘﺮ ﺣﻤﻠﮧ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺍٓﭖ ﯾﮧ کہہ ﺭﮨﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﺍﯾﺮﺍﻥ ﭘﺮ ﺣﻤﻠﮯ ﮐﮯ ﮈﺭ ﺳﮯ ﻣﯿﮟ ﺍﺳﻼﻡ ﭘﺮ ﺣﻤﻠﮯ ﭘﺮ ﭼﭗ ﺭﮨﻮﮞ؟ میں ﮐﯿﺴﺎ ﻓﻘﯿﮧ ﮨﻮﮞ، ﻣﯿﮟ ﮐﯿﺴﺎ ﻣﺮﺟﻊ ﺗﻘﻠﯿﺪ ﮨﻮﮞ، ﻣﯿﮟ ﮐﯿﺴﺎ ﺭﮨﺒﺮ ﺍﺳﻼﻡ ﮨﻮﮞ ﮐﮧ اﺳﻼﻡ ﭘﺮ ﺣﻤﻠﮧ ﮨﻮﺟﺎﺋﮯ ﺗﻮ ﻣﯿﮟ ﭼﭗ ﮨﻮ ﺟﺎﻭﮞ ﻟﯿﮑﻦ ﺍﯾﺮﺍﻥ ﭘﺮ ﺣﻤﻠﮧ ﮨﻮ ﺗﻮ ﻣﯿﮟ بوﻝ ﭘﮍﻭﮞ! ﭘﮭﺮ ﺗﻮ ﻣﯿﮟ ﻓﻘﯿﮧ ﺍﺳﻼﻡ ﻧﮩﯿﮟ ﺑﻠﮑﮧ ﻓﻘﯿﮧ ﺍﯾﺮﺍﻥ ﮨوں!
کشمیر میں جاری بھارتی مظالم کے خلاف اور آزادی کے تحریک کی متعلق رہبر معظم آیت اللہ خامنہ ای نے جو بیان دیا اس پر بھارت نے سیخ پا ہوکر ایرانی سفیر کو دہلی میں بھارتی دفتر خارجہ طلب کرکے احتجاج کیا تھا مگر عالم اسلام کی درد پر رہبر خاموش نہیں رہے اور اس پر ایرانی حکومت نے پرواہ نہیں کیا۔ جبکہ ہم نے امریکہ اور سعودی حکومت کے پریشر پر ابھی تک پاک ایران پائپ لائن مکمل نہیں کیا اور ایران نے اپنے سرحد تک مقررہ وقت سے قبل پایہ تکمیل تک پہنچا دیا تھا اور ہم پر ایران نے معاہدے کی خلاف ورزی کرنے پر روزانہ کی بنیاد پر ملین ڈالرز جرمانہ معاف کردیا، پاکستان سے محبت کی بنا پر حالانکہ ایران پر مشکل وقت آیا جب امریکہ اقوام متحدہ یورپی یونین چاپان نے پابندیاں لگائیں تو پاکستان نے بھی اس وقت ایران کا ساتھ چھوڑ دیا۔ ہم نے ایران سے درآمدات اور برآمدات پر پابندی لگا دی۔ صرف بھارت اور چین دو ملک تھے جس نے بارٹر سسٹم کے تحت کسی نا کسی شکل میں ایران سے تجارت جاری رکھی اور ان کی مدد کردی۔
آج ہمیں سوچنا ہوگا کہاں کہاں ہم سے غلطیاں سرزد ہوئی؟ کیوں ہماری خارجہ پالیسی دوستوں کے بھیس میں چھپے دشمنوں کو پہچان نہیں پا رہی ہے؟ اردگان نے دورے میں سعودی اماراتی پیغام پہنچایا جس کی فوری بعد بھارت نے آج ایران سے تیل کی ۱/۴ درآمدات کم کردی ہیں۔
اب وقت آگیا ہے ہمیں قبلہ درست کرنے کا۔